جب بھی کشتی میری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جا تی ہے
منور رانا کے انتقال سے اردو ادب کو بڑا نقصان احمدآباد:منور رانا کے انتقال سے اردو ادب کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ گجرات کے مشہور ادیب غلام محمد انصاری نے اس تعلق سے کہا کہ آج حقیقت میں ماں کا لاڈلا چلا گیا۔ منور رانا کے انتقال کی خبر نے پوری دنیا کو غمگین کر دیا۔ بہت اچھے شاعر بہت مقبول شاعر اور شاعری کے ادب کو ایک نئی سمت اور منفرد سمت دینے والے منور رانا تھے۔ انہوں نے ان مضامین کو بھی اپنی باتوں کا اپنی شاعری کا حصہ بنا دیا جو اکثر چھوٹ جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی ذکر کیا جن پر قلم اٹھانا لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ بہت کم لوگوں کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ وہ اچھے مضمون نگار تھے۔ ان کے مضامین موجودہ نسل کی بہترین مضامین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ منور رانا کا انتقال اردو ادب کے لیے بڑا نقصان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
گیا ضلع میں منور رانا اور اقتدار خان کی دوستی کی دی جاتی ہے مثال
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں مستقبل قریب میں نہ پُر ہونے والا خلا سا پیدا ہو گیا ہے۔ جس سے ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ منور رانا نے اپنی شاعری کے ذریعہ ہر ملک کے لوگوں کو متاثر کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پوری دنیا میں وہ مشہور ہو گئے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے علاوہ ہندوستان کے بہت سارے ایوارڈ انہیں ملے۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے انہیں ایوارڈ ملے اور انہیں بہت چاہا گیا۔ راحت اندوری کے بعد منور رانا ایک بڑا نام تھا اور دنیا بھر میں چاہا جانے والا نام تھا۔ ایک ایسی شاعری جس کو پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمارا اپنا اظہار ان کی زبان سے ہو رہا ہے اور سننے والے کو یہ لگتا تھا کہ ان کی بات وہ نہایت سلیقہ سے سلیس انداز میں کہہ رہے ہیں۔ اردو ادب کا یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
گجرات کے شاعر مظہر رحمان پٹھان نے کہا کہ منور رانا کے انتقال سے ادب کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ یہ وہ آخری شاعر تھا۔ آج کے زول پذیر زمانہ میں کہ جو زبان و ادب کا جو تعلق تھا اس کا یہ علمبردار رہا اور نیا لب و لہجہ اور اپنا ایک انداز لے کر دنیا کے اندر جس طرح سے اس نے اردو شاعری کو متعارف کرایا آج وہ ذات خاموش ہو گئی۔ وہ اردو لب و لہجے کا ایک بے باک شاعر تھا۔ اس کا ایک احسان تھا کہ مشاعرہ کی دنیا میں جس انداز کو اس نے اپنایا۔ اس نے نوجوانوں کو متاثر کیا۔ زبان کی طرف تہذیب کی طرف اور سب سے بڑی خدمت یہ ہے ان کی کہ ان کی شاعری سے پورے ہندوستان کے اندر جو اردو ادب کی جو خدمت کی۔ انہوں نے اور جو ماحول خاص کر نوجوانوں میں جس طرح سے تحفظ دیا۔ اردو زبان کو اس کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا اور جیسے ماں کے حوالے سے جو ان کی شاعری ہے۔ وہ تو ان کے لیے تاریخی حیثیت بن گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اندر یاد کیا جائے گا۔ یہ واحد ہندوستان کے آخری مشاعرے کے بھی شاعر ہیں جن کو مشاعرے کا شاعر کہتے ہیں۔ کتابوں کے شاعر تو بہت گزرے اور بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں لیکن یہ واحد مشاعرے کا اتنا بڑا شاعر تھا کہ جس کی شعروں میں ہندوستان کے گاؤں بولتے تھے اور ہمارے ہندوستان کے چلتے چلتے شہر ان کی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو آج کا زوال پذیر دور ہے اور جس معاشرتی معاملات کے اندر جو مسائل ہیں اس کو لے کر انہوں نے جو اپنی شاعری کے اندر اس کو بیج دیا ہے۔ اس کی وہ مثال نہیں ہے اور اتنی آسان زبان جس کو ہم سہل ممتنہ کہتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال انہوں نے پیش کی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا جو لب و لہجہ تھا۔ اتنا منفرد تھا کہ وہ سب سے الگ ہوتا تھا اور سب کو بہت متاثر ہوتا تھا ان کا لہجہ اور انہوں نے اسی لہجہ سے اپنی ایک پہچان بنائی۔