شہر کی تاریخی مساجد میں سے ایک احمدآباد کی رانی سپری کی مسجد جو اپنی فن نقاشی کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے اور اسے بھی ورلڈ ہیریٹیج میں شامل کیا گیا ہے لیکن اب اس مسجد کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے ساتھ ہی رانی سپری کے مقبرے کی حالت بہت بھی خستہ ہوتی نظر آ رہی ہے۔
چھ سو برس قدیم تاریخی مسجد لاپروائی کا شکار اس مسجد کے کئی پتھر اور جالیاں ٹوٹ چکی ہیں، عمارت کے پتھر بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں، مقبرے کی اندرونی حالت بھی انتہائی خراب ہے کیونکہ بارش کی وجہ سے یہاں کی چھت سے پانی ٹپکتا ہے جس کی وجہ سے مقبرے کی در و دیواریں کالی ہورہی ہیں۔
رانی سپری کی مسجد کی مرمت کروانے کے لیے احمد آباد کے ایک مقامی کاؤنسلر شاہ نواز شیخ نے آرکیو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ آف انڈیا (محکمۂ آثار قدیمہ) کو ایک مکتوب بھی لکھا ہے۔
ایسے میں شاہنواز شیخ نے بتایا کہ احمدآباد کو تاریخی عمارت کی وجہ سے ورلڈ ہیریٹیج کی درجہ ملا ہے اور رانی سپری کی مسجد اپنے نقاشی کام کی وجہ سے سب سے زیادہ مشہور ہے لیکن یہ اب خستہ حال ہوچکی ہے۔
مسجد کی کئی جالیاں ٹوٹ چکی ہیں، گنبد کے کئی حصے بھی ٹوٹ چکے ہیں لیکن محکمہ آثار قدیمہ اس پر دھیان نہیں دے رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ مسجد سنی مسلم وقف کمیٹی کے ماتحت ہے لیکن اس مسجد کی مرمت کا کام تو محکمہ آثار قدیمہ کو ہی کروانا ہے کیونکہ اس کے رکھ رکھاؤ کی ذمہ داری محکمہ آثار قدیمہ کی ہے لیکن اس مسجد کے ساتھ اب تک لاپرواہی برتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ احمدآباد شہر کے اسٹوڈیو دروازے کے نزدیک موجود رانی سپری کی مسجد کی بنیاد 600 برس قبل ساتویں سلطان محمود بیگڑا کی بیگم رانی سپری کے نام پر رکھی گئی تھی جہاں رانی سپری کا مقبرہ بھی بنا ہوا ہے۔
بارہ پلروں پر کھڑی اس مسجد میں چھ گنبد ہیں اور دونوں جانب کھڑے مینارے مسجد کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ رانی سپری کے مقبرے میں کی گئی نقاشی اتنی باریک اور خوبصورت ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے لیے غیر ملکی سیاح کھینچے چلے آتے ہیں اور اس مسجد کی خوبصورتی کو اپنے کیمرے میں قید کر لیتے ہیں۔
اس تعلق سے اب آثارقدیمہ میں شکایت درج کی گئی ہے لیکن ابھی تک کوئی کام نہیں شروع ہوا ہے ایسے میں اب ضرورت ہے کہ رانی سپری کی مسجد کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لیے جلد از جلد اس کا تعمیراتی کام شروع کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس مسجد کو دیکھ سکیں۔