اردو

urdu

ETV Bharat / state

'تو جو اتنا اداس ہے ناصر! تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی'

گجرات یونیورسٹی میں ناصر کاظمی کی حیات و خدمات پر ایک سمینار منعقد ہوا جس کا مقصدعوام کو ان کی شاعری اور شخصیت سے متعارف کرانا تھا۔

By

Published : Mar 28, 2019, 8:47 PM IST

Updated : Mar 29, 2019, 5:47 PM IST

س


اس سمینار میں ادبا و شعرا نے ناصر کاظمی کی حیات و خدمات پر مقالات پیش کیے۔

ریاست گجرات یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر مسیح الزماں انصاری نے کہا کہ' ناصر کاظمی اردو کے بہترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ان کی شاعری میر تقی میر کی شاعری کی طرح ہی درد انگیز ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں گجرات میں پہلی بار ناصر کاظمی کی حیات اور ادبی خدمات پر سیمنار رکھا گیا۔
خیال رہے کہ ناصر کاظمی کی شاعری میں مختلف انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی ملتی ہے۔

متعقلہ ویڈیو

انہوں عہد جدید کا میر بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے میر کی زمین میں شاعری تھی۔

وہ سنہ 1947 کے بعد بھارت سے پاکستان سے ہجرت کرگئے۔

یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہا انہوں نے نہ صرف 1947 کی بھارت اور پاکستان کی تقسیم دیکھی بلکہ سنہ 1971 کی پاکستان کی تقسیم یعنی سقوط ڈھاکہ کے مناظر بھی دیکھے۔

تقسیم کے درد نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس درد کو برداشت نہ کرسکے اور 1972 میں وفات پاگئے۔

ان کی شاعری میں ہجرت کا درد جھلکتا ہے، اس درد کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔

وہ سنہ 1925میں ریاست پنجاب کے امبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔

وطن سے ہجرت کے بعد ان کی زندگی ادھیر بن میں گزری۔

وہ اپنی راتیں اکثر چائے خانے میں گزارتے اور شعر کہتے تھے۔

ان کی شاعری میں درد و ہجر کے ساتھ ساتھ رومانوی کیفیت بھی دکھائی دیتی ہے۔

ان کے چند اشعار یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔

شہر اجڑے تو کیا، ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم، صبرکر، صبر کر

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

Last Updated : Mar 29, 2019, 5:47 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details