احمدآباد: شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے بالیسانہ گاؤں میں 16 جولائی کی رات کو ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم کے بعد علاقے کے مسلم باشندے خوفزدہ ہیں اور ان کے خلاف پولیس کی یکطرفہ کارروائی سے مسلسل خوف میں جی رہے ہیں۔ دراصل متنازعہ ہندی فلم 'دی کیرالہ سٹوری' کے ارد گرد گھومنے والی اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹ وائرل ہونے بعد فرقہ وارانہ تصادم شروع ہوا تھا جس میں آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔ گاؤں میں دو دکانوں میں توڑ پھوڑ اور آگ لگا دی گئی تھی۔
پٹن پولیس کے مطابق دونوں کمیونٹی نے دو ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔ اس کی وجہ سے پٹن پولیس نے 10 لوگوں کو گرفتار کیا جن میں سے 8 مسلمان تھے۔ بالیسانہ کے مقامی لوگ بالیسانہ پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام لگا رہے ہیں اس شخص کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی جس نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ کی جس سے مسلم کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے اور نفرت کی فضا پھیلائی جس کی وجہ سے بالیسانہ گاؤں کا ماحول خراب ہوا؟ پولس نے صرف مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو ہی کیوں گرفتار کیا اور گاؤں میں ان کا مارچ بھی کرایا۔
مقامی لوگوں کا مزید کہنا ہے کہ پولس کے ذریعہ بالیسانہ میں درج دو ایف آئی آر میں، 30 سے 35 لوگوں کے خلاف شکایت درج کی گئی ہے، لیکن مسلم کمیونٹی کی طرف سے پولیس کو 12 لوگوں کے نام دینے کے باوجود ایف آئی آر میں صرف 2 لوگوں کا نام ہے، ایسا کیوں ہے؟ پولیس نے اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا کہ 108 پر پتھراؤ کیا گیا؟ جو لوگ اب بھی سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور نفرت انگیز ماحول پھیلانے کے لیے پوسٹ کر رہے ہیں ان کے خلاف پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ذرائع کے مطابق گرفتار کیے گئے مسلمان مردوں کو ہی مقامی پولیس نے شہر کے گرد پریڈ کرایا تھا۔ دس افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن مقامی پولیس نے صرف مسلمان مردوں کی پریڈ کی اس دوران وہ پوچھتے رہے کہ کیا ان میں کوئی بنگلہ دیشی باشندہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے پوری رات مسلمانوں کے گھرانوں پر چھاپے مارے اور مسلمان مردوں کو حراست میں بھی لیا۔