مبینہ لو جہاد کا فتنہ کھڑا کر کے گجرات حکومت نے 15/جولائی کو 'مذہبی آزادی (ترمیم شدہ) ایکٹ 2021' نافذ کیا تھا۔ اس کے بعد بہت سارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور متعدد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند ودیگر کی طرف سے گجرات ہائی کورٹ میں اس قانون کے خلاف ایک ہفتہ قبل ایک عرضی داخل کی گئی تھی۔
جمعرات کو گجرات ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ریاستی حکومت (ایڈوکیٹ جنرل) کو نوٹس جاری کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ محمد عیسٰی حکیم اور سینیئر وکیل مہر جوشی ہیں۔
جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس ویرن وشنو کی دو رکنی بنچ نے حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس طرح کے قانون بنانے کا مقصد پوچھا ہے اور سوال کیا کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ شادی زبردستی ہوئی ہے یا دھوکہ سے ہوئی ہے، تو مان لیا یہ جرم ہے، لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ شادی کی وجہ سے کسی شخص نے مذہب بدلا ہے، اس لیے جرم ہے، تو بتائیں وہ کیسے جرم ہے؟
یہ سوال درحقیقت عدالت نے قانون کی شق 3 میں 'شادی کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی' والے جملے کی روشنی میں کیا۔
عدالت نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ "اگر کوئی شادی کرتا ہے تو کیا آپ اسے جیل بھیجیں گے اور پھر اطمینان حاصل کریں گے کہ شادی زبردستی کی گئی تھی یا لالچ میں؟ اس پر حکومت کی طرف سے عدالت میں موجود لو کمار نے جواب دینے کے لیے وقت طلب کیا اور کہا کہ اس سے قبل قانون کا مکمل مطالعہ ضروری ہے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء گجرات کی طرف سے دائر کردہ عرضی میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس قانون کے غلط استعمال ہونے کا صد فی صد خطرہ ہے۔ اس کے اندر 'لالچ' دے کر تبدیلی مذہب کو جرم قرار دیا گیا ہے اور لفظ 'لالچ' کی تشریح اس طر ح کئی گئی ہے کہ ہر طرح کا قدم جرم مانا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی کو مذہب قبول کرنے کے تناظر میں 'خدا کی رضامندی، ناراضی اور بہتر زندگی' کی بات کہے (لالچ دے) تو بھی وہ مجرم قرار دیا جائے گا اور اسے لالچ اور دھوکہ کے زمرے میں رکھا جائے گا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانون مکمل طور سے مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور کسی بھی شخص کو مذہب بدلنے یا مذہب کی دعوت دینے سے صاف طور سے روکتا ہے، جو آئین ہند کی بنیادی دفعہ 25 کو روندنے والا ہے۔
اس سلسلے میں آج نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ گجرات میں بنایا گیا قانون آئین کے بنیادی دفعات کے خلاف ہے۔ اقتدار چلانے والوں کو قانون بنانے کا حق ہے، لیکن انسانی حقوق، شخصی آزادی اور آئین کے بنیادی دفعات کو کچلنے والا قانون ملک سے محبت کرنے والے کسی بھی طبقے کو منظور نہیں ہو سکتا۔