اردو

urdu

ETV Bharat / state

گجرات کے سیاسی منظرنامے پر ظفر سریش والا سے خاص گفتگو - گجرات کی اہم خبر

گجرات کی سیاست اور 2022 اسمبلی انتخابات کے تعلق سے ظفر سریش والا نے کہا کہ' 2022 کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں مسلمانوں کی تین سے چار ہی سیٹیں آئیں گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ گجرات میں کانگریس کی اب تک جو تین سیٹیں ہیں اس میں بھی کمی آئے اور تین کے بجائے یہ سیٹیں دو یا ایک بھی ہو سکتی ہے۔

گجرات کے سیاسی منظرنامے پر مشہور تاجر ظفر شریش والا سے خصوصی گفتگو
گجرات کے سیاسی منظرنامے پر مشہور تاجر ظفر شریش والا سے خصوصی گفتگو

By

Published : Oct 3, 2021, 8:17 PM IST

Updated : Oct 3, 2021, 8:23 PM IST

ملک کی سیاست اور گجرات کے سیاسی حالات کے تعلق سے گجرات کے مشہور تاجر اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کی۔

گجرات کے سیاسی منظرنامے پر مشہور تاجر ظفر شریش والا سے خصوصی گفتگو

گجرات کی سیاست اور 2022 اسمبلی انتخابات کے تعلق سے ظفر سریش والا نے کہا کہ' 2022 کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں مسلمانوں کی تین سے چار ہی سیٹیں آئیں گی، گرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ گجرات میں کانگریس کیاب تک جو تین سیٹیں ہیں اس میں بھی کمی آئے اور تین کے بجائے دو یا ایک بھی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں خاص طور پر مسلمان تو میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ جب تک آپ غیر مسلموں میں اپنی مقبولیت نہیں پیدا کرتے تب تک آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ یہ کوئی سمجھتا ہو کہ میں مسلمانوں کے ووٹ سے جیت جاؤں گا تو یہ ناممکن ہے۔

ہم آپ کو بتا دیں کہ ظفر سریش والا وزیر اعظم نریندر مودی کے بہت ہی قریبی ہیں، لیکن اب تک بی جے پی پارٹی جوائن کیوں نہیں کی۔ اس سوال کا جواب میں انہوں نے کہا کہ میرا وزیراعظم مودی سے کبھی بھی سیاسی تعلق نہیں رہا۔ میرا ان سے ذاتی تعلق ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے تب میں نے ان کے تعاون سے گجرات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کیا تھا۔

2002 کے فسادات کے بعد مسلمانوں کو کافی ضرورت تھی۔ میں نے مسلم مسائل کو ان تک پہنچانے کی کوشش کی اور تعلیم و تربیت کے پروگرام کے لئے بھی حکومت کا بڑا سپورٹ ہے۔ مجھے سیاست میں جانا ہی نہیں ہے۔ مجھے سیاست میں جانا ہوتا تو شائد میںبیس پچیس سال پہلےسوچتا، فی الحال میرا کوئی سیاسی رول نہیں ہے۔

اردو کی خستہ حالی کے تعلق سے ظفر سریش والا نے کہا کہ' اردو ملک میں کہیں بھی نہیں رہی۔ اردو مدرسوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اردو کو اگر زندہ رکھنا ہو تو ہمیں اپنے گھروں سے یہ کام شروع کرنا پڑے گا کیونکہ میں نے بھی اپنے گھر سے ہی اردو سیکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو مسلمانوں کے سیاسی رہنما بننا چاہتے ہیں انہیں سب سے پہلے مقبول عام ہونا ہوگا۔ آپ کو بھارت میں اپنی مقبولیت پیدا کرنی ہوگی تو لوگ ووٹ دیں گے۔ لیکن موجودہ سیاسی پارٹیوں نے مسلم لیڈرشپ کو ابھرنے نہیں دیا۔ ہر پارٹی نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے لیے استعمال کیا۔

اسدالدین اویسی کی گجرات میں دستک کے تعلق سے ظفر سریش والا نے کہا کہ 'حیدرآباد میں بھی اسدالدین اویسی مسلم و غیر مسلم ووٹوں سے جیت کر آتے ہیں۔ ان کی مقبولیت غیر مسلموں میں بھی ہے۔ وہ غیر مسلموں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ وہ غیر مسلموں کو ٹکٹ بھی دیتے ہیں۔ اویسی اگر سبھی اقوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تو وہ بالکل ابھر سکتے ہیں۔ ایک خاص شناخت سے کوئی سیاسی پارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی۔'

انہوں نے آخر میں کہا کہ اویسی کے مقابلے کا کوئی رہنما فی الحال نہیں ہے۔ ان کے آنے سے لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے اور جب وہ بولتے ہیں تو غیر مسلم بھی سنتے ہیں۔ وہ بہت اچھی بات کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا دبدبہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوگا۔'

Last Updated : Oct 3, 2021, 8:23 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details