گجرات کے اسمبلی انتخابات دلچسپ ہوتے جا رہے ہیں، خاص طور پر جن حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کی تعداد زیادہ ہے وہاں امیدواروں کی بھرمار ہے۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جو بظاہر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ پارٹی مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے، نےگجرات میں اپنے پہلے اسمبلی انتخابات میں چودہ امیدواروں، جن میں بارہ مسلم ہیں، کو ان نشستوں پر میدان میں اتارا ہے جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ ان امیدواروں سے بی جے پی کیلئے آسانی سے جیت درج کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اویسی کے امیدواروں کا میدان میں آنا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کیلئے ایک چیلنچ بن گیا ہے۔
اس کے برعکس، بی جے پی کے پاس ریاست میں ایک وفادار ووٹر بیس ہے اور ان پر اثر انداز ہونا مشکل ہے۔ کانگریس اور عآپ کا دارومدار غیر بی جے پی ووٹروں پر ہوتا ہے جو ان کی ووٹر بیس بناتے ہیں۔ گجرات کے مسلمانوں نے جو کہ بی جے پی مخالف سمجھے جاتے ہیں نے ہمیشہ بی جے پی کے متبادل کے طور پر کانگریس کو ووٹ دیا ہے، لیکن اس الیکشن میں ان کے لیے بہت سے متبادل موجود ہیں، جو مسلم ووٹوں میں بڑی تقسیم کا سبب بن سکتے ہیں۔
بہار کی گوپال گنج سیٹ پر حال ہی میں ختم ہونے والا ضمنی انتخاب اس بات کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کس طرح اپوزیشن کی طاقت کو اپنے جھولے میں ڈال سکتی ہے۔ یہاں بی جے پی اور آر جے ڈی میں تقریباً 1794 ووٹوں کا فرق تھا اور اے آئی ایم آئی ایم کو تقریباً 12214 ووٹ ملے جو اصل میں آر جے ڈی کے کھاتے سے کم ہوئے۔ اگر اویسی نے عبدالسلام کو بطور امیدوار کھڑا نہ کیا ہوتا تو آر جے ڈی نے گوپال گنج سیٹ تقریباً 10,000 ووٹوں کے فرق سے جیت لی ہوتی۔ اسی طرح احمد آباد کی جمال پور-کھیڈا سیٹ کسی بھی طرح سے بہار کی گوپال گنج سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی بھاجپا کے مقابلے میں اپوزیشن کا ووٹ کانگریس، عآپ اور اویسی کے امیدوار کے درمیان تقسیم ہوگا۔
جمال پورکھیڈا کے مسلمانوں کی چھیپا آبادی حلقے میں رائے دہندگان کا ایک اہم حصہ بناتی ہے، اس لیے اس بار عمران کھیڑاوالا اور صابر کابلی والا، جو دونوں چھیپا طبقے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ عمران جمال پور-کھڈیا کے موجودہ ایم ایل اے ہیں، جب کہ صابر اویسی کی پارٹی کے ریاستی صدر ہیں۔ چھیپا برادری میں، ایک طویل عرصے سے یہ روایت رہی ہے کہ کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کا متفقہ فیصلہ لیا جاتا ہے اور پھر پوری برادری اس فرمان پر عمل کرتی ہے۔ تاہم، اس بار، چونکہ دونوں امیدوار اسی برادری کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا ذہن نہیں بنا پائیں گے اور ووٹروں کی یہ الجھن بی جے پی کے حق میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہ خیال کہ اویسی بی جے پی کی بی ٹیم ہیں اور وہ جن امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہیں وہ بی جے پی کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، کچھ عرصے سے زیر بحث ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اویسی کی ساکھ پر خاص طور پر بہار کی سیٹ پر ضمنی انتخابات کے بعد سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ عام تاثر ہے کہ یہ سیٹ بی جے پی کے پاس گئی کیونکہ اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار نے ووٹ تقسیم کیا۔ گجرات میں لوگوں نے اویسی کے خلاف احتجاج کیا اور اویسی مخالف نعرے لگائے جب وہ اپنے امیدواروں کی مہم چلا رہے تھے۔ مظاہرین نے انہیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ کہا۔
اویسی نے باپو نگر سیٹ سے اپنے امیدوار کو دستبردار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ ڈیمیج کنٹرول کے طور پر کیا گیا یا سوچی سمجھی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، جس نے باپو نگر سیٹ کانگریس کے امیدوار ہمت سنگھ کو چھوڑ دی جہاں پورے حلقے میں 16 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم کے شاہنواز پٹھان نے احمد آباد کی باپو نگر سیٹ سے اپنا نامزدگی واپس لی۔
اسی دوران، اویسی نے کانگریس کے موجودہ ایم ایل اے شیلیش پرمار کے خلاف ہندو درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے امیدوار کو احمد آباد کے دانیلمڈا حلقے سے بطور امیدوار کھڑا کیا۔ یہ ایس سی کے لیے مخصوص سیٹ ہے، اویسی کے امیدوار کھڑا کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور دلتوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ دانیلمڈا سیٹ پر ایس سی اور ایس ٹی کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ اس حلقے کے کل 239999 ووٹرز میں سے تقریباً 65760 مسلم ووٹر ہیں، جو اسمبلی میں ان کا ووٹ شیئر 27 فیصد ہے۔