گاندربل کے واکورہ علاقے میں کئی برسوں سے بڑھئی کے طور پر کام کرنے والے 36 سالہ راکیش سنگھ کی لاش گذشتہ ہفتے اس کے کرایے کے کمرے میں پائی گئی۔ موت کی خبر پھیلتے ہی مقامی لوگ مرد و زن اس کے کمرے کے باہر جمع ہوگئے۔
جب کشمیریوں نے پنجاب کے غیر مسلم بڑھئی کی آخری رسومات انجام دیں راکیش کو اگرچہ اپنے دیگر ساتھیوں اور چند مقامی نوجوانوں نے ہسپتال پہنچایا لیکن وہاں اس کو مردہ قرار دیا گیا۔
موجودہ حالات کے پیش نظر مقامی لوگوں نے راکیش سنگھ کے گھر والوں کی اجازت حاصل کرنے کے بعد اس کی آخری رسومات اس کے ساتھیوں اور کچھ پنڈتوں کی ہدایات کے مطابق انجام دیں۔
متوفی کی آخری رسومات انجام دینے کی ایک مختصر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں جہاں ایک طرف مقامی نوجوانوں کو کورونا کے پیش نظر حفاظتی لباس لگائے ہوئے اس کی چتا کو آگ لگانے کے لئے لکڑی وغیرہ کا انتظام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے وہیں خواتین کو اس کی موت پر آبدیدہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ مختصر ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے اور لوگ اس کو پسند بھی کررہے ہیں اور اس کو بڑے پیمانے پر شیئر کرکے حقیقی کشمیریت کی تشہیر بھی کی جارہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیریوں نے ایسے حالات میں ایک پرائے کی میت کی آخری رسومات انجام دی ہیں جب دنیا میں لوگ اپنوں کی لاش کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں کہ کہیں انہیں وائرس نہ ہوجائے۔
ویڈیو میں ایک مقامی شخص کا کہنا ہے: 'پنجاب سے تعلق رکھنے والا راکیش سنگھ یہاں کئی برسوں سے بڑھئی کے طور پر کام کرتا تھا، اس کی لاش اس کے کرایہ کے کمرے میں پائی گئی چونکہ موجودہ حالات کی وجہ سے اس کو گھر بھیجنا ممکن نہیں تھا تو یہاں مقامی لوگوں نے اس کی آخری رسومات انجام دینے کا فیصلہ لیا'۔
جب کشمیریوں نے پنجاب کے غیر مسلم بڑھئی کی آخری رسومات انجام دیں انہوں نے کہا کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں لہٰذا اس کے ساتھیوں اور پنڈتوں کی ہدایات کے مطابق ہم نے اس کی آخری رسومات انجام دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی آخری رسومات کی انجام دہی کے لئے مقامی نوجوانوں نے سارے انتظامات کئے۔
متوفی کے ایک رشتہ کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے: 'میں یہاں بیس برسوں سے کام کررہا ہوں، جب میرا بھائی مر گیا تو یہاں اس وقت بھی لوگوں نے میری کافی مدد کی'۔