گاندربل: وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع میں فش فارمنگ میں ایک دلچسپ ترقی جاری ہے، جس میں ضلع کے 30 فیصد سے زیادہ فش فارمز اب خواتین کے زیر کنٹرول ہیں اور انہیں کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں۔ اور یہ خواتین کمیونٹی کو بااختیار بنا رہے ہیں۔ ماہی پروری کے محکمے کے عہدیداروں نے مختلف سرکاری اسکیموں، جیسے پردھان منتری متسیہ سمپدنا یوجنا اور حال ہی میں ایک جامع زرعی ترقیاتی منصوبہ کے استعمال میں ان خواتین کاروباریوں کے فعال کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ ان پروگراموں کے تحت خواتین استفادہ کنندگان کو پروجیکٹ کی کل لاگت پر 60% سبسڈی ملتی ہے۔ محکمہ کے ایک افسر نے کہا کہ ہم ایسی اسکیموں کے ذریعے ان خواتین کو آمادہ اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، انہیں مچھلی کے کاروبار کو اپنانے اور معاشی خود کفالت حاصل کرنے کے لیے بااختیار بنا رہے ہیں۔
ایک خاتون کاروباری شگفتہ اختر جو پہلے ایک سافٹ ویئر انجینئر تھی، نے اپنی کامیابی کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے دو سالوں سے اپنا فش فارم چلا رہی ہے، جس کو حکومت کی طرف سے خاطر خواہ سبسڈی ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اس کاروبار سے اپنے خاندان کی کفالت کر سکتے ہیں۔ حکومت کے تعاون سے ہمیں اپنے کاروبار کو پھیلانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا ایمانداری سے روزی کمانے میں کوئی شرم کی بات نہیں، یہ منشیات کے استعمال جیسی ناجائز سرگرمیوں کا سہارا لینے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مچھلی کاشتکاری ایک منافع بخش کاروبار ہے، اور وہ نوجوانوں بالخصوص جو لوگ منشیات کی لت سے لڑ رہے ہیں، کو متبادل راستے تلاش کرنے اور اپنے کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ایک اور کاروباری شخصیت کلثومہ مجید نے سوشل میڈیا کے ذریعے فش فارمنگ کی اسکیموں کے بارے میں جانکاری حاصل کی اور انہوں نے فش فارم کے لیے درخواست دی اور اسے قائم کرنے کے لیے ضروری وسائل آسانی سے حاصل کر لیے۔ کلثومہ مجید نے کہا کہ محکمہ نے فنڈنگ، بیج، تربیت، اور ہر قسم کی مدد فراہم کی جو مجھے شروع کرنے کے لیے درکار تھی۔