اردو

urdu

By

Published : Aug 27, 2020, 3:07 PM IST

ETV Bharat / state

گاندربل: انگور کی کاشت کو تحفظ کی ضرورت

گاندربل میں انگور کی فصل مہاراجہ ہری سنگھ کی وجہ سے شروع ہوئی تھی، پہلی بار مہاراجہ نے اسے افغانستان سے بھارت لایا تھا۔

Ganderbal
Ganderbal

وادیٔ کشمیر جہاں اپنی خوبصورتی کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ وہیں وادی میں پائے جانے والے میوہ جات بھی بین الاقوامی سطح پر فروخت کیے جاتے ہیں۔

وسطی ضلع گاندربل کے ری پورہ لار علاقے میں تقریباً 60 ہیکٹر اراضی پر انگور کی کاشت کی جاتی ہے جس سے مذکورہ علاقہ کے ہزاروں افراد اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان اس فصل کی وجہ سے روز گار حاصل کرتے ہیں۔

گاندربل: انگور کی کاشت کو تحفظ کی ضرورت

مقامی کاشتکاروں کے مطابق یہاں کے انگور نہ صرف وادی میں بلکہ پورے ملک میں اپنی مٹھاس کے لیے مشہور ہیں۔

انگور کی کاشتکاری میں اضافے کے لئے باغ مالکان بہت محنت کرتے ہیں لیکن مختلف امراض کے باعث انہیں اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس دوران متعلقہ محکمہ بیماری سے بچاؤ کے لئے ادویات مہیا کرانے میں پوری طرح ناکام رہتا ہے۔

مقامی کاشتکار کا کہنا ہے کہ سال 2019 میں بھی انگور کی فصل کو پُر اسرار بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے مقامی کاشتکاروں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

باغ مالکان نے کہا کہ اس ضمن میں کیندریے وگیان کیندر تک بھی معاملے کو پہنچایا گیا لیکن ان کے پاس اس بیماری کے خاتمہ یا فصل کو اس بیماری سے بچانے کے لئے کوئی ادویات یا ماہر ٹیم موجود نہیں ہے۔

باغ مالکان نے اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وقت رہتے بیماری کا علاج نہیں ڈھونڈا جائے تو پوری کی پوری فصل تباہ ہوکر رہ جائے گی اور اس سے منسلک افراد کو لاکھوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔

مقامی کاشتکاروں نے محکمۂ ایگریکلچر کے اعلیٰ افسران اور ایگریکلچر سیکریٹری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے کر انگور کی فصل کو الگ الگ بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے فوری طور پر اقدامات اُٹھائیں تاکہ ضلع میں انگور کی پیداوار کو اور بھی بڑھایا جائے۔

مقامی لوگوں کے مطابق گاندربل میں انگور کی فصل مہاراجہ ہری سنگھ کی وجہ سے شروع ہوئی تھی، پہلی بار مہاراجہ نے اسے افغانستان سے بھارت لایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مہاراجہ رپورہ میں اپنی زمین پر انگور اگاتے تھے جو آج محکمہ باغبانی کے پاس ہے۔

ایک دوسرے مقامی کاشتکار نے کہا کہ صائب، حسینی اور كشمش جیسی اقسام کے انگور یہاں پائے جاتے جو اٹلی کے بعد بڑی کاشتکاری مانی جاتی ہے۔

مقامی کاشتکار نے وادی میں ملنے والی ادویات کو جعلی اور بے فائدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان ادویات سے فصلوں میں پیدا ہونے والی بیماریوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

ظاہر ہے انتظامیہ کو وادی میں فائدے مند ادویات فراہم کرنا لازمی ہے تاکہ اس فصل کے ساتھ ساتھ وادی کی شناخت کو برقرار رکھا جا سکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details