'گذشتہ روز میں اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ کیا تھا جس پر مجھے کوئی اضافہ نہیں کرنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو اس ٹویٹ میں کسی اضافے کا حق نہیں ہے۔ یہ ٹویٹ اس تناظر میں تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جا رہا ہے، چاہے وہ لنچنگ ہو یا فسادات یا میڈیا کے حملے یا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں ہو۔' یہ باتیں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنے پریس نوٹ میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں ایک محب وطن ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملکوں میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ ملک کے اندر میں نے ہمیشہ مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی طرح مسائل موجود ہیں لیکن ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔ میں نے ہمیشہ ہی عربی میڈیا اور الجزیرہ جیسے چینلز پر اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ کارگل جنگ کے دوران بھارت کا میرا دفاع آج بھی عرب دنیا میں بہت سے لوگوں کو یاد ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'جب کویت کے المجتمع میگزین نے برسوں قبل مجھ سے کشمیر کے بارے میں بھارتی مسلمانوں کے نقطۂ نظر کے بارے میں لکھنے کو کہا تو ایڈیٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں نے بھارتی موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی مسلمان ہندوستان سے کشمیر کی علیحدگی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہ مضمون پاکستان کے ایک شخص کے جواب کے ساتھ شائع ہوا تھا اور یہ آخری بار تھا جب میں نے اس میگزین کے لئے کچھ لکھا تھا۔'