اردو

urdu

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا بیان

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنے ایک پریس نوٹ میں کہا کہ 'میں نے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔'

By

Published : Apr 29, 2020, 11:25 PM IST

Published : Apr 29, 2020, 11:25 PM IST

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا بیان
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا بیان

'گذشتہ روز میں اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ کیا تھا جس پر مجھے کوئی اضافہ نہیں کرنا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو اس ٹویٹ میں کسی اضافے کا حق نہیں ہے۔ یہ ٹویٹ اس تناظر میں تھا کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جا رہا ہے، چاہے وہ لنچنگ ہو یا فسادات یا میڈیا کے حملے یا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں ہو۔' یہ باتیں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنے پریس نوٹ میں کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'میں نے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں ایک محب وطن ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملکوں میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ ملک کے اندر میں نے ہمیشہ مسائل کے بارے میں آواز اٹھائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی دوسرے ملک کی طرح مسائل موجود ہیں لیکن ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہے۔ میں نے ہمیشہ ہی عربی میڈیا اور الجزیرہ جیسے چینلز پر اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ کارگل جنگ کے دوران بھارت کا میرا دفاع آج بھی عرب دنیا میں بہت سے لوگوں کو یاد ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'جب کویت کے المجتمع میگزین نے برسوں قبل مجھ سے کشمیر کے بارے میں بھارتی مسلمانوں کے نقطۂ نظر کے بارے میں لکھنے کو کہا تو ایڈیٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں نے بھارتی موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی مسلمان ہندوستان سے کشمیر کی علیحدگی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہ مضمون پاکستان کے ایک شخص کے جواب کے ساتھ شائع ہوا تھا اور یہ آخری بار تھا جب میں نے اس میگزین کے لئے کچھ لکھا تھا۔'

ظفر الاسلام خان نے کہا کہ 'میرے علم کے مطابق، بھارتی مسلمانوں نے عرب اور مسلم دنیا میں اپنے ملک کے خلاف بیرونی طاقتوں سے کبھی شکایت نہیں کی۔ میں اور دوسرے بھارتی مسلمان قانون کی حکمرانی، آئین اور ہمارے ملک کے عظیم اداروں پر یقین رکھتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ 'کچھ لوگوں نے دہلی حکومت پر حملہ کرنا شروع کردیا ہے گویا وہ میرے ٹویٹ کے ذمہ دار ہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کا ممبر نہ تھا اور نہ ہی ہوں۔ وہ جس کمیشن کی میں سربراہی کرتا ہوں وہ ایک قانونی اور خود مختار ادارہ ہے جو دہلی اقلیتی کمیشن ایکٹ 1999 کے تحت چلتا ہے۔ عآپ یا دہلی میں اس کی حکومت کمیشن نہیں چلاتی ہے۔ کمیشن خود اپنے کام کے لیے جوابدہ ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'میں اس موقع پر میڈیا کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ کل، جس دن میری ٹویٹ سامنے آئی ریاست ہائے متحدہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کی مذہبی آزادیوں میں بہت تیزی سے خرابی آئی ہے اور حکومت نے مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف تشدد کی مہمات جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ میں ہندوتوادیوں اور ان کے گودی میڈیا کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ بین الاقوامی کمیشن کے اس سنگین الزام کا نوٹس لیں۔ میرے خیالات کو بعض الیکٹرانک چینلز نے بگاڑ کر پیش کیا ہے اور میری طرف غلط باتوں کو منسوب کیا ہے۔ میں ان کے خلاف مناسب قانونی اقدام کروں گا۔'

ABOUT THE AUTHOR

...view details