اردو

urdu

ETV Bharat / state

ہندوستان-مشرق وسطی-یورپ اقتصادی راہداری مبثت اور بہتر تبدیلی کا باعث ہوگا - دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس کے اہم نکات

Year-ender 2023: India-Middle East-Europe Economic Corridor قومی دار الحکومت نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس کے اہم نکات میں سے ایک اسٹریٹجک انڈیا مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری کا اعلان تھا۔ ای ٹی وی بھارت کی نمرتا شرما نے اسی معاملے پر زیر نظر مضمون لکھا ہے کہ 'اسٹریٹجک انڈیا مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری' مستقبل میں ہندوستان کی کس طرح مدد کرے گا کیونکہ یہ ایشیاء اور یورپ کے درمیان ایک مشترکہ لنک ہوگا۔

Year-ender 2023
Year-ender 2023

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Dec 24, 2023, 7:46 AM IST

حیدرآباد: سال 2023 ہندوستانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کیونکہ اسی سال ہندوستان نے ماہ ستمبر میں جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ ملک کے مختلف علاقوں، شمال میں لداخ اور جموں و کشمیر سے لے کر جنوب میں کنیا کماری تک اور شمال مشرق میں شیلانگ اور گوہاٹی سے لے کر مغرب میں گوا اور کچ کے رن تک مختلف وزارتی اور سیکرٹری سطح کے گروپ مباحثے ہوئے تھے۔

  • اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بننے کے لیے دنیا کو درپیش بہت سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان میں سرفہرست ہیں:

(i) گلوبل بائیو فیول الائنس کا اعلان۔ اس اتحاد میں نو ممالک اس کے ممبر ہیں اور یہ پائیدار بائیو فیول کی ترقی اور اسے اپنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

(ii) انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور۔ اس پروجیکٹ کے باعث مستقبل میں ہندوستان کو بڑے پیمانے پر مدد حاصل ہوگی۔ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور (آئی ایم ای سی) ایک مجوزہ اقتصادی راہداری ہے۔ جس کا منصوبہ ستمبر میں نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ اس راہداری کے منصوبے کو امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت حاصل تھی۔ آئی ایم ای سی میں ہندوستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، اٹلی، اور یورپی یونین اور امریکہ بھی شامل ہیں۔ اس راہداری کا آئیڈیا براہ راست چین کی حمایت یافتہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنا ہے۔

آئی ایم ای سی پروجیکٹ میں دو الگ الگ کوریڈور شامل ہیں۔ ایسٹ کوریڈور، جو ہندوستان کو مشرق وسطیٰ کے ممالک سے جوڑتا ہے اور شمالی کوریڈور، جو اسرائیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو یورپ سے جوڑتا ہے۔

ایم او یو دستاویز میں کہا گیا ہے کہ "آئی ایم ای سی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایشیا، جزیرہ نما عرب اور یورپ کے درمیان بہتر رابطہ اور اقتصادی انضمام کے ذریعے معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔" یہ متوقع راہداری یورپ اور ایشیاء کے درمیان نقل و حمل اور مواصلاتی روابط کو بڑھانے کے لیے شروع کی گئی ہے جس میں سڑک، ریل اور نقل و حمل کے جہاز رانی کے طریقے شامل ہیں۔

یہ راہداری چینی بی آر آئی کے قرضوں کے جال کا براہ راست متبادل ہے۔ اگرچہ آئی ایم ای سی ایک منصوبہ بند راہداری ہے۔ آئی ایم ای سی جغرافیائی سیاسی زاویے سے کافی اہم ہے اور یہ قابل اعتماد اور محفوظ سپلائی چَین اور بہتر تجارتی رسائی کو بھی تقویت دے گا۔ اس راہداری کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ راہداری افریقی براعظم سے بھی جڑ رہی ہے، جو ایک بار پھر غریب ترین حصوں کو شامل کرنے کا باعث بنے گی۔ اس راہداری کے ساتھ ساتھ ممالک بھی دنیا کی معروف منڈیوں کے درمیان بہتر رابطوں کے ذریعے مستفید ہوں گے جس سے کاروبار کے بے شمار نئے مواقع فراہم ہوں گے۔ لیکن آئی ایم ای سی کے آغاز سے پہلے اسرائیل فلسطین تنازع نے اس مجوزہ راہداری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ اسرائیل میں حیفہ بندرگاہ یورپ کو ملانے والی اس راہداری کی ایک اہم کڑی ہے۔

علاوہ ازیں ترکی کے صدر رجب اردگان نے بھی اس اقتصادی راہداری پر اپنے ملک کو اس راہداری میں شامل نہ کرنے پر نکتہ چینی کی ہے۔ ترک صدر نے عراق پر مشتمل آئی ایم ای سی کے متبادل راستے کے لیے اپنے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان رکاوٹوں کے باوجود آئی ایم ای سی کا مستقبل بہت روشن ہے اور یہ ایشیاء اور یورپ کے درمیان ایک مشترکہ رابطہ ہوگا۔ حال ہی میں آئی ایم ای سی کو فروغ دینے میں اٹلی نے چینی حمایت یافتہ بی آر آئی سے دستبرداری اختیار کر لی ہے اور وہ مکمل طور پر آئی ایم ای سی پر انحصار کرے گا۔

مزید پڑھیں: انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور اور مودی و بائیڈن کا سیاسی مستقبل

مزید پڑھیں: بھارت مشرق وسطی یورپ اقتصادی راہداری سعودی عرب کے لیے بڑی اہمیت کی حامل: محمد بن سلمان

جہاں تک ہندوستانی نقطہ نظر کا تعلق ہے۔ اگر یہ راہداری مکمل ہو جاتی ہے تو ہندوستانی بنیادی ڈھانچے کو ایک بڑا فروغ ملے گا جس میں کنیکٹوٹی، اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقع اور تمام شراکت داروں کے لیے بالعموم اور بالخصوص ہندوستان کے لیے خوشحالی شامل ہے۔ آخر میں یہ آئی ایم ای سی تمام متعلقہ فریقوں کے لیے ایک جیت کی صورت حال ہوگی اور امید ہے کہ اس راہداری میں تمام شریک ممالک معاشرے میں خوشحالی لائیں گے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details