تاہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے چین کے شہر شنزہن کا منظر نامہ اس سب کے برعکس ہے۔ وہاں کا ٹرانسپورٹ نظام پوری دنیا کو ایک جدید راستہ دکھاتا ہے ۔بس اور ٹیکسی زیادہ تر لوگوں کے لئے سفرکا بنیادی ذرئعہ ہے اور یہ دنیا باالخصوص میٹرو شہروں کے لئے، جو ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنا چاہتے ہیں، قوتِ حرکت ہے۔
حکومت کی پہل
محض چالیس سال قبل تک شنزہنہانگ کانگ کے نزدیک مچھلیاں پکڑنے کے لئے جانا جاتا رہا تاہم اب یہ ایک عظیم شہر میں بدل چکا ہے جہاں کی آبادی تقریباَ دو کروڑ ہے۔ چینی حکومت نے اس شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہترین بنانے اور آلودگی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مناسب منصوبہ بندی کرکے دس سال کے اندر اندر اس ہدف کو حاصل کرلیا۔ شنزہن میں 17 ہزار بسیں اور 20 ہزار ٹیکسیاں ہیں۔ اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چھوڑ کر یہاں روزانہ 20 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ دس سال قبل شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ ہوائی آلودگی ان کی صحت کے لئے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی۔چینی حکومت نے مختلف متبادلوں کی کھوج کی اور 2011 میں شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں پیلی الیکٹرک بس متعارف کی۔ چناچہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے اقدامات کئے اور دوسری جانب لوگوں نے بھی ان اقدامات کا خیر مقدم کیا۔ یہاں تک کہ اپنی گاڑیاں رکھنے والوں نے بھی عام ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کیا۔ اس عمل سے شنزہن دیکھتے ہی دیکھتے ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور ایک مزے دار رہائشی ماحول والا شہر بن گیا۔ ایک دہائی میں شہر کا ماحول اتنا تبدیل ہو گیا کہ آج بھی پوری دنیا انتہائی دلچسپی کے ساتھ یہاں کی طرف دیکھ رہی ہے۔
الیکٹرک بسوں کی آمد سے شہر میں انقلابی تبدیلی
ٹرانسپورٹ نظام میں بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کی آمد سے شنزہن میں لوگوں نے ایک اور نمایاں تبدیلی یہ محسوس کی کہ انہیں بسوں کے پریشان کر دینے والے شورشرابا سے نجات ملی۔ اس شہر میں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے نپٹا گیا ہے وہیں گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی پوری طرح قابو میں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے شنزہن کے شہری ایک عجیب بلکہ مزاحیہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلنے والی گاڑیاں خطرناک ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ گاڑیوں سے کم از کم اتنی آواز آئے کہ جس سے ان کی آمد معلوم پڑتی ہو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی صورتحال کس حد تک بدل چکی ہے۔