ملک میں خواتین کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی سربراہی میں ایک سو پچاس سے زائد خواتین سماجی کارکنوں نے دارالحکومت کے جنتر منتر پر احتجاجی دھرنا دیکر اپنی مخالفت درج کرائی اور وادی کشمیر میں جمہوری حقوق اور انسانی حقوق کوبحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
آل انڈیا ڈیموکریٹک وومین ایسوسی ایشن، انجمن ترقی پسند مصنفین ، ترقی پسند انجمن خواتین ، دہلی یونیورسٹی اساتذہ ایسوسی ایشن، جواہر لال نہرو اسٹوڈنٹس یونین، انہد، موبائل کریچ، بالیگھا ٹرسٹ جیسے مختلف تنظیموں کی خواتین کارکنوں نے کہا کہ کشمیر گزشتہ ایک مہینہ سے زائد عرصہ سے مواصلات کا نظام پوری طرح ٹھپ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں سے رابطہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہاں کی خواتین ہر ماہ کی 10 تاریخ کو لال چوک پر جمع ہوکر انصاف کے لئے آواز اٹھاتی رہی ہیں اور یہ بتاتی رہی ہیں کہ ان کے کتنے رشتے دار فوجی کارروائیوں میں لاپتہ ہوگئے ہیں۔ اس سال 10 تاریخ کو محرم کا تہوار ہے اور ایسی صورتحال میں ان خواتین کا درد مزید گہرا ہوگیا ہے۔ ہم سب آج ان کی حمایت میں اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے ہیں۔
این ایف آئی ڈبلیو سکریٹری جنرل اینی راجہ نے خواتین کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں دائیں بازو کی طاقتوں کو شکست دینے کے لئے آج متحد ہوکر اپنی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ حکومت آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے جمہوری حقوق کو کچل رہی ہے اور اس کے پیچھے کارپوریٹ قوتوں کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ وہ جموں و کشمیر کی سرزمین پر قبضہ کرکے وہاں اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی میمونہ ملا نے بتایا کہ وہ خود جموں و کشمیر گئی تھیں اور انہوں نے وہاں کشمیری خواتین سے بات چیت کرکے یہ پتہ لگایا کہ وہ کتنی تکلیفوں سے گزر رہی ہیں۔ ان کے چھوٹے بچوں کو پکڑ کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے اور بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔
کشمیر جانے والی تحقیقاتی ٹیم کی رکن کی حیثیت سے ، محترمہ ملا نے کہا کہ لوگوں کو ان کے اہل خانہ کے کسی فرد کی موت کی صورت میں بھی اظہار تعزیت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
مقررین نے یہ بھی کہا کہ یہ کشمیری خواتین ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ میڈیا سے بھی اپنی بات نہیں کرسکتی ہیں۔
اس موقع پرکئی کارکنوں نے نغموں اور اشعار پڑھ کر اپنی مزاحمت کا اظہار کیا۔