یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اچانک یہ اعلان سماج دشمن عناصر کو دور رکھنے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے تاکہ ان کو اس حساس، جذباتی اور عقیدے معاملے کے بارے میں اعلان سے قبل کسی بھی طرح کی سازش کے لیے تیار ہونے کا موقع نہ ملے۔
اس معاملے میں سماعت مکمل ہونے کے بعد، عدالت عظمیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور اس کے بعد سے یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ یہ فیصلہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے آئے گا۔
جسٹس گوگوئی 17 نومبر کو سبکدوش ہونے والے ہیں۔ اگرچہ عدالت کسی بھی دن کیس کی سماعت کرسکتی ہے اور اپنا فیصلہ بھی سناتی ہے لیکن 17 نومبر اتوار ہے اور عام طور پر، کسی اہم معاملے میں فیصلے کا اعلان چھٹی کے دن نہیں کیا جاتا ہے۔
بتادیں کہ عدالت کے فیصلوں کا اعلان ججز کی سبکدوشی کے دن نہیں ہوتا اور 16 نومبر ہفتے کا دن ہے۔
اس کے علاوہ، گوگوئی کا چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے کے طور پر آخری دن 15 نومبر ہے۔ اس سے یہ قیاس آرائی ہوئی تھی کہ ایودھیا کیس کے فیصلے پر جسٹس گوگوئی کی سربراہی میں بنچ 14 نومبر یا 15 نومبر کو فیصلہ سنا سکتی ہے۔
عام طور پر، اگر عدالت کسی فیصلے کا اعلان کرتی ہے تو اگلے روز مدعی یا مدعا علیہ میں سے ایک عدالت سے دوبارہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کرتا ہے اور اس عمل میں عام طور پر ایک یا دو دن لگتے ہیں۔تاہم نہ تو عدالت اور نہ ہی حکومت نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ایودھیا کیس میں فیصلہ 14 سے 15نومبر سے پہلے آسکتا ہے۔
گذشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اچانک کہا تھا کہ بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا آج 10.30 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔
ایودھیا کیس کے فیصلے سے قبل ملک کی کئی ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں انتہائی سخت ترین سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔