اردو

urdu

ETV Bharat / state

UCC Issue یکساں سول کوڈ پر سیاست کیوں؟

مرکزی حکومت ملک میں ایک ایسا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جس کے مطابق تمام مذاہب کے عائلی قوانین یکساں ہوں، جو شادی وبیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات میں تمام مذہبی برادریوں پر یکساں لاگو ہوگا۔

Etv Bharat
Etv Bharat

By

Published : Jul 15, 2023, 9:43 PM IST

Updated : Jul 15, 2023, 10:14 PM IST

UCC Issue یکساں سول کوڈ پر سیاست کیوں؟

ان دنوں ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ کافی سرخیوں میں ہے۔ ٹی وی، اخبارات اور نیوز چیلنوں پر یکساں سول کوڈ سے متعلق کافی بحثیں جاری ہیں۔ دراصل مرکزی حکومت ملک میں ایک ایسا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جس کے مطابق تمام مذاہب کے عائلی قوانین یکساں ہوں، جو شادی وبیاہ، طلاق، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات میں تمام مذہبی برادریوں پر یکساں لاگو ہوگا۔

یو سی سی اور لا کمشین

اس سلسلے میں الکیشن نے ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے ملک کی مذہبی تنظیموں اور عوام سے یو سی سی سے متعلق تجاویز14 جولائی تک مانگی تھیں۔ اس دوران عوام کے زبردست ردعمل کے پیش نظر لاء کمیشن نے یو سی سی پر تجاویز دینے کا وقت 28 جولائی تک بڑھا دیا ہے۔ لاء کمیشن کو اب تک یکساں سول کوڈ سے متعلق 50 لاکھ سے زیادہ آن لائن تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ بتادیں کہ اس سے قبل 21 ویں لاء کمیشن نے 2016 میں ایک سوالنامہ جاری کر کے یکساں سول کوڈ پر لوگوں کی رائے مانگی تھی، جس پر عوامی ردعمل کے بعد 2018 میں لاکمیشن نے کہا تھا کہ اس وقت یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب، تاہم کمیشن اس نتیجے پر اس لیے پہنچا کیونکہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت مسلمانوں سے زیادہ ہندو کر سکتے تھے۔

یو سی سی کے نقصانات

ملک میں متعدد مذاہب اور برادری سے تعلق رکھنے والوں کے الگ الگ اپنے پرسنل لاز ہیں اور اگر ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوتا ہے تو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے پرسنل لاز متاثر ہوں گے۔ گوا میں عیسائیوں اور ہندوں کے پرسنل لاز ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے بالکل مختلف ہیں۔ وہیں آسام کی بی جے پی حکومت بھی یکساں سول کوڈ کے نام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے کیونکہ آسام میں کئی ایسی کمیونٹیز ہیں جن کے اپنے پرسنل لاز ہیں اور اگر ان کے پرسنل لاز کو ختم کیا گیا تو وہ مخالفت میں آسکتے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے قبائلیوں کے بھی اپنے اپنے رسوم و رواج ہیں، جن میں چھیڑ خانی کو وہ برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ وہیں مسلمانوں کا اپنا پرنسل لاء ہے، جو مسلمانوں میں شادی بیاہ، وراثت کی تقسیم اور خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل کا احاطہ کرتا ہے تاہم اگر ملک میں یو سی سی نافذ ہوتا ہے تو اس کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور وقف بورڈ جیسے اداروں کے امور میں مداخلت ہو گی۔ اس کے علاوہ اقلیتی اداروں کی امتیازی شناخت بھی ختم ہوسکتی ہے کیونکہ یکساں سول کوڈ جب بھی نافذ کیا جائے گا، ان اداروں کی مودہ ہیئت کلی طور تبدیل ہوجائے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کو متاثر کرے گا یا دیگر مذہب کے لوگ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور کیا بھارت جیسے ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا ممکن ہے؟ یا پھر بی جے پئ حکومت تین طلاق ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، سی اے اے، این آر سی اور جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یکساں سول کوڈ کو انتخابی ایجنڈہ بنارہی ہے۔

یو سی سی پر سیاست

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت یکساں سول کوڈ کے ذریعہ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو خوف ذدہ اور اکثریتی طبقہ کے ہندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، چونکہ بی جے پی کے کئی رہنما اور مرکزی وزرا ملک کے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یو سی سی صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے باقی دیگر برادریوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس غلط فہمی کو مزید تقویت دینے کے لئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ حکومت عیسائی اور قبائلی برادریوں کو یکساں سول کوڈ سے متثنی رکھنے پر غور کر رہی ہے۔ امت شاہ کا یہ بیان مسلمانوں کے ان خدشات کو تقویت دیتا ہے یو سی سی کی اس مشق کا مقصد کیا ہے ۔ وہیں وزیراعظم نے بھی صاف الفاظ میں یو سی سی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھر میں دو قانون کیسے چل سکتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ یونیفارم سیول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ایم مودی کے یو سی سی سے متعلق بیان پر ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے ردعمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی کے نفاذ سے مسلمانوں سے زیادہ ہندوں کو نقصان پہنچے گا لیکن وزیراعظم کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ وہیں کانگریس سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے یو سی سی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے بی جے پی کا انتخابی ایجنڈہ قرار دیا ہے۔

یو سی سی اور لوک سبھا الیکشن

وہیں تجزیہ نگاروں کا بھی ماننا ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی یکساں سول کوڈ کو محض ایک انتخابی انجنڈہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت نے ماضی میں جس طرح سے فرقہ وارآنہ ماحول پیدا کرکے اور ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ بینک کی سیاست کی ہے، یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں تین طلاق پر قانون سازی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، سی اے اے، این آر سی اور جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی کو انتخابی ایجنڈے کے طور پر استعمال کیا حالانکہ دیکھا جائے تو جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی سے وہاں کے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئے ہیں، کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری نہ کے برابر ہوئی ہے، مرکزی حکومت وہاں چار سال بعد بھی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آج بھی وہاں پریس آزاد نہیں ہے۔ وہیں حکومت کی جانب سے 2019 میں لائے گئے سی اے اے کو قانونی درجہ حاصل ہونے کے چار سال بعد بھی پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت میں ہندوؤں کی آمد میں کوئی اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا ہے ۔۔۔۔۔۔ یکسان سول کوڈ کا بیانیہ ایک ایسے وقت میں عام کیا جارہا ہے جب پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے والی ہے اور 2024 کے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شرمناک شکست، راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی اور اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کے درمیان بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ اسکے اقتدار کے سامنے بڑے جیلنجز آگئے ہیں اسلئے انہوں نے اسی دوا کا سہارا لینا شروع کیا ہے جسکا استعمال کرکے وہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس بار اس جماعت کا یہ آزمودہ نسخہ کارگر ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔

Last Updated : Jul 15, 2023, 10:14 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details