بی جے پی کا کہنا تھا کہ دہلی انتخابات کے نتائج حیران کردینے والے ہونگے، واقعتا یہ نتائج بڑے حیران کردینے والے تھے۔اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی کسی رکاوٹ کے بغیر ریس میں سب سے آگے نکلنے میں کامیاب رہی ہے۔
جہاں عام آدمی پارٹی نے نتائج سے متعلق جائزوں(ایکزٹ پول)کو سچ ثابت کیا وہیں بی جے پی کو محض آٹھ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے، وہیں سنہ 1996 سے سنہ 2013 تک شیلا دکشت کی قیادت میں لگاتار تین بار دہلی اسمبلی کو جیتتی رہی کانگریس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
70سیٹوں والی دلی اسمبلی میں 54فیصد ووٹ کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا67نشستیں لے لینا ایک تاریخ ہے حالانکہ یہ بات حیران کن ہے کہ حالیہ انتخابات میں سنہ 2015کے انتخابات کے مقابلے میں 5فیصد کم ووٹ پڑا ہے اور کیجریوال کی پارٹی کو بھی مقابلتاَ ایک فیصد کم ووٹ ملا ہے۔
تاہم اسکے باوجود بھی پارٹی نے 62نشستوں پر کامیابی پائی۔حیران کن بات یہ ہے کہ بی جے پی فقط پانچ نشستیں ہی حاصل کرسکی ہیں جسے ساڑھے چھ فیصد ووٹ کے اضافہ کے ساتھ 38.8فیصد ووٹ ملا ہے۔
کانگریس پارٹی جو دہلی میں اپنی شناخت کھوتی جارہی ہے، اس نے سال2008میں 40.3 ،سال2013 میں 24.5، سال2015میں9.6فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ اب کی بار 63حلقہ ہائے انتخاب میں زرِ ضمانت کی رقم تک ہار کر اس نے اپنا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
2015عام آدمی پارٹی کی جیتی ہوئی67نشستوں میں سے 60حلقہ ہائے انتخاب میں دس ہزار سے زیادہ ووٹوں کا اور45نشستوں پر بیس ہزار سے زیادہ ووٹوں کا فرق تھا ۔ اُس وقت بی جے پی کے حصے میں آئی تین نشستوں کا فیصلہ فقط چھ ہزار ووٹوں سے ہوا تھا۔البتہ ابھی کے انتخاب میں نائبِ وزیرِ اعلیٰ منیش سسودیا کی جیت آخری وقت تک اس حد تک غیر یقینیت کی شکار رہی لیکن وہ بالآخر فقط تین ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت گئے۔
یہ بہر حال کیجریوال حکومت کیلئے ایک انتباہی اشارہ ہونا چاہیئے۔البتہ بہتر شہری سہولیات کی دستیابی کے بدلے میں جو ووٹ کا تحفہ مجموعی طور پر کیجریوال کو ملا ہے۔اس سے ان کی حکومت پر راجدھانی کےلوگوں کی زندگی کو مزید بہتر معیار کی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے۔
سنہ 1996 میں بی جے پی کے کپتان واجپائی نے ممبئی مہادیویسن پر کہا تھا ہم نے آشو میدھا یگاسو ( اظہار بالادستی کا رسمی گھوڑا) چھوڑ دیا ہے جو دہلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔یہ وہ دن تھا جب پارٹی نے 42.8 ووٹوں کے ساتھ دہلی اسمبلی کی49 نشستیں حاصل کر لی تھی اور پارٹی عام انتخابات جیت جانے اور بھارت کی حکومت کا کمان پانے تک کی امید کرتی تھی۔اگرچہ بی جے پی مرکز میں اور دلی اسمبلی میں بھی، پہلی باربرسرِ اقتدار آئی ہے تاہم کانگریس نے راجدھانی میں سال1988سے اقتدار پایا۔
حالانکہ بی جے پی نے سال2014 اور پھر دوبارہ سال 2019کے عام انتخاب میں کامیاب ہوتو گئی، لیکن دہلی اسمبلی ان کے لیے لگاتار کھٹے انگور ثابت ہورہےہیں۔
سال2014کے لوک سبھا انتخابات میں 'مودی لہر' نے سبھی 7لوک سبھا نشستوں اور 60سے زیادہ اسمبلی نشستوں کو جیت لیا لیکن سال2015کے اسمبلی انتخاب میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی لہر کو پوری طرح دبا دیا۔
بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو سال2017کے میونسپل انتخابات میں محص26فیصد ووٹ تک محدود کردیا تھا لیکن گذشتہ عام انتخابات میں اس نے سبھی 7نشستیں حاصل کرلی تھیں۔اُس انتخاب کے دوران عام آدمی پاٹی کا ووٹ شرح 18فیصد تک گر گیا جس سے بی جے پی کو یہ برہم ہوا کہ 'مودی جادو'کے بل پر وہ دہلی اسمبلی کو بھی اپنی جھولی میں ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
مگر حالیہ انتخابی نتائج بی جے پی کیلئے زود ہضم ہیں۔بی جے پی کو خود احتسابی کرکے اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ شہری ترمیمی قانون، ہندوتوا ایجنڈا، بڑی ریلیوں میں دو سو سے زائد ممبرانِ پارلیمنٹ اور پچاس سے زیادہ مرکزی وزرا ءکی راجدھانی میں موجودگی، روڑ شوز اور دہلی کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کی ان کی جدوجہد کے باوجود دہلی کی عوام نے ان کے بجائے عام آدمی پارٹی کیوں سراقتدار میں بٹھایا۔
آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو دہلی نے 140ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے یہاں کی حالت قابلِ افسوس بن گئی تھی۔
عام آدمی پارٹی (اے اے پی) جسکا انتخابی نشان بطور سرکاری دفاتر میں سے رشوت ستانی کا صفایا کرنے کی علامت ہے، انہوں نے بنیادی طور پر بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کیے رکھی ۔جس وجہ سے انہوں نے خصوصٰی طور پر غریبوں اور خواتین کا اعتماد جیت لیا ہے۔
کیجریوال کی پارٹی نے سنہ 2013 میں اقتدار میں آنے کے بعد مفت بجلی اور پانی کی تقسیم کی اسکیمیں بنانے کے علاوہ محلہ کلینک(محلوں کی سطح پر اسپتال)کھول کر خود کو عام لوگوں کے قریب کردیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دی اور ساتھ ہی لڑکیوں اور خواتین کیلئے مفت ٹرانسپورٹ کا انتظام کرایا اوربڑے پیمانے پر سی سی ٹی وی کیمرے لگواکر خواتین کی حفاظت کو ترجیح دی جس پر لوگ انکی تعریفیں کرنے لگے۔
عام آدمی پارٹی نے خود کو فضول سیاست میں مبتلا نہ ہونے دیا، تنازعات سے دور رہی اور حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے اس نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کا اعلان کیا۔
مسلمان ووٹروں جو 14فیصد ہیں، انہوں نے کیجریوال کی مکمل حمایت کی۔ ایک بار اس بات کا ادراک کرنے کے بعد کہ قومی سطح پر توسیع پانے کی اسکے لئے گنجائش نہیں ہے۔کیجریوال کی پارٹی نے دہلی کے میونسپل الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت پسند بن کر فقط دپلی پر توجہ مرکوز رکھی۔
مرکز اور دہلی سرکار کے حدودِ اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کیجریوال کو 60 ہزار کروڑ روپے کے سالانہ بجٹ کے ساتھ راجدھانی کے حالاتِ زندگی کو مزید بہتر کرنے کی زبردست محنت کرنی ہوگی۔
یہ بات دیکھنے والی ہوگی کہ کیجریوال کی حکومت دہلی کے معیار زندگی کو کس طرح اور کتنا بہتر کرے گی، جو معیارِ سہولیات کے حوالے سے عالمی سطح پر140کی مرتبہ فہرست میں ابھی118ویں نمبر پر ہے۔یہ اسکے لئے بڑا امتحان ہوگا۔