غلام نبی آزاد نے راجیہ سبھا میں کہا کہ 'میں اردو کے چند اشعار کے ساتھ رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ دس گھنٹے کی تقریر کا خلاصہ محض دو اشعار میں کیا جا سکتا ہے اور میں اس نقطہ نظر کو اپنانا چاہوں گا۔ اپنے پورے سیاسی خیالات کے بارے میں اظہار کرنا ایک مشکل کام ہوگا ۔'
غلام نبی آزاد نے اپنی تقریر میں سابق وزیراعظم اور بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'حزب اختلاف کے رہنما ہو تو ایوان بالا چلانا کتنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن میں کہوں گا کہ سب سے آسان مجھے اٹل واجپئی جی کی پانچ سال کی قیادت کے دوران لگا۔ اٹل جی استاد تھے اور ان سے میں نے سیکھا کہ کیسے کسی مسئلے کا حل دونوں طرف کی باتیں سن کر نکالا جاسکے۔'
غلام نبی نے کہا کہ جس بات سے میں نے سیاسی کیریئر شروع کیا ہے۔ میں گاندھی، مولانا آزاد، جواہر لال نہرو کو پڑھتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ شعر پڑھا:
خون کی مانگ ہے اس دیش کی رَکشَا کے لیے
میرے نزدیک یہ قربانی بہت چھوٹی ہے دے دو
انہوں نے کہا کہ اپنے سیاسی دور میں مجھے بھارت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے ملک کے تقریباً تمام یوٹیز و ریاستوں کو انچارج کرنے کا موقع ملا۔
غلام نبی آزاد نے اپنی الوداعی پر راجیہ سبھا سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا۔ کشمیر میں 30 جولائی 2007 میں ہوئے بس دھماکے، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے کا تذکرہ کرتے ہوئے غلام نبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
غلام نبی آزاد نے ایک اور شعر پڑھے:
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، شام ہی تو ہے
انہوں نے کہا کہ جب میں جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائر ہوا تھا تو پہلی عوامی میٹنگ سوپور میں منعقد کی تھی۔