اردو

urdu

ETV Bharat / state

مسلم رہنماؤں کی گرفتاری پر امریکی کمیشن کی بھارت پر تنقید - انسانی حقوق

عالمی سطح پر مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت میں کورونا وائرس کے سب سے بڑے انسانی بحران کے دوران ایسے مسلم سماجی کارکنان کی گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کی ہے، جنہوں نے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

امریکی کمیشن کی بھارت پر تنقید
امریکی کمیشن کی بھارت پر تنقید

By

Published : May 15, 2020, 9:09 AM IST

امریکی ادارے کے ذریعہ بھارت میں مسلم رہنماؤں کی گرفتاریوں پر تنقید کی گئی۔ یہ بین الاقوامی سطح کے انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعہ عار دلانے کی مسلسل کوششوں کی ایک اضافی کڑی ہے، اس سے قبل اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی اور یورپین پارلیمنٹ کے اندرونی تحقیقی مرکز کے ذریعے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی پر تشویش کا مسلسل اظہار کیا گیا ہے۔

رواں برس کے دوسرے ماہ میں ہی امریکی کمیشن نے بھارت کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور اب کمیشن کی جانب سے ایک اور رپورٹ جاری کی جاتی ہے، جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے موقع پر جب انسانی بنیادوں پر قیدیوں کی رہائی کی کوشش ہونی چاہئے۔

بھارت مسلم رہنماؤں کو صرف اس وجہ سے قید و بندکی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ انہوں نے ایک قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے جمہوری حقوق کااستعمال کیا۔

یو ایس سی آئی آر ایف

ٹویٹ کے ذریعے امریکی کمیشن نے کہا کہ 'اس وقت بھارت کو سیاسی قیدیوں کو رہا کرناچاہئے، نا کہ انہیں احتجاج کے جمہوری حقوق کے استعمال کے لیے ہدف بنانا چاہئے۔

کمیشن نے اپنے بیان میں خاص طورپر صفورہ زرگر کا ذکر کیا، جسے تین ماہ کے حمل کے باوجود دہلی فسادات سے جوڑ کر گرفتار کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق 27 سالہ صفورہ کو 10 اپریل کو گرفتار کیا گیا اور اس پر انسداد غیر قانونی سرگرمیاں 2019 (یواے پی اے) عائد کیا گیا، جب اسے حراست میں لیا گیا تھا تب وہ 3 ماہ کی حاملہ تھیں۔ صفورہ قومی دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ریسرچ اسکالرہے، جس نے مذہبی تعصب پر مبنی متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلسل کئی مہینوں تک چلنے والے جامعہ مظاہرہ کے منتظم ادارہ جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کی میڈیا انچارج کی ذمہ داری انجام دی تھی۔

بشکریہ ٹویٹر

ایک دیگر ٹویٹ میں امریکی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ 2020کے حوالے سے کہا کہ کمیشن نے بھارت کو ان ممالک کے زمرہ میں رکھا ہے جہاں 2019 کے دوران مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ سال 2020 میں بھی جاری ہے۔

کمیشن نے اس بات کی وضاحت بھی کہ سنہ 2004کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کو مذہبی آزادی کے زمرہ میں بلیک لسٹ میں رکھنے کی سفارش کی گئی۔

اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف بھارتی حکومت کوئی بھی کارروائی نہیں کررہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں دہلی میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے کہا گیا کہ 'فروری 2020 میں دہلی میں تین دنوں تک تشدد جاری رہا۔ اس میں ہجوم نے مسلم علاقوں پر حملہ کیا اور ایسی رپورٹیں تھیں کہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس حملے کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ خود بھی تشدد میں شامل رہی۔

خاص بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے امریکی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے، تاہم کمیشن کی جانب سے مسلم رہنماؤں کی گرفتاری پر تنقید بھارتی حکام کے لیے ایک ایسے وقت میں نیا درد سر بن کر سامنے آیا ہے جب اسے مسلم اقلیت کے حقوق کی خلاف ورزی کے قضیہ میں کچھ عرب ممالک کے شاہی خاندان کے افراد کی جانب سے شدید مخالفت اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف

واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی کے دفتر کی جانب سے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست داخل کی گئی اور اس قانون میں ترمیم اور نظرثانی کی گزارش کی، جس کے خلاف بڑے پیمانے احتجاجی مظاہرے ہوئے اوران کے آرگنائیزرس کی بڑی تعداد میں دوران گرفتار کیا گیا۔

اس زمرہ میں یورپین پارلیمنٹ کے اندرونی تحقیقی مرکز کی تازہ رپورٹ آئی ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدارمیں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی، جموں و کشمیر کی صورتحال اور ہندو قوم پرستی میں اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details