نئی دہلی:جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 25، 26 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے، ہندوستان کے دستور میں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات انتہائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کے لیے آئین کی دفعہ 44 جو کہ دستور ہند کے رہنما اصولوں کے باب IV میں درج ہے۔ جس کا نفاذ لازمی نہیں (بلکہ ایک مشورہ ہے)، اس کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو آئین میں کہی گئی ہے، حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سرسنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ‘‘یونیفارم سول کوڈ بھارت کے لیے غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے’’۔
حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ آئین کے باب 3 کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ، تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔ آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لوگوں کے مذہبی عقائد اور رواج مختلف رہے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا نہیں ہوئی۔