اردو

urdu

ETV Bharat / state

Arshad Madani on Uniform Civil Code یکساں سول کوڈ آئین میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے: ارشد مدنی

جمعیت علماء کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے کاہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، جو ناقابل قبول اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لیے نقصاندہ ہے۔ Controversy On Uniform Civil Code

Arshad Madani on Uniform Civil Code
Arshad Madani on Uniform Civil Code

By

Published : Jun 19, 2023, 4:50 PM IST

نئی دہلی:جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 25، 26 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے، ہندوستان کے دستور میں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات انتہائی حیرت انگیز ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کے لیے آئین کی دفعہ 44 جو کہ دستور ہند کے رہنما اصولوں کے باب IV میں درج ہے۔ جس کا نفاذ لازمی نہیں (بلکہ ایک مشورہ ہے)، اس کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو آئین میں کہی گئی ہے، حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سرسنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ‘‘یونیفارم سول کوڈ بھارت کے لیے غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے’’۔

حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ آئین کے باب 3 کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ، تبدیلی کا اختیار نہیں ہے۔ آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لوگوں کے مذہبی عقائد اور رواج مختلف رہے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

درحقیقت ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ کہہ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کی بات آئین کا حصہ ہے جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے، ملک میں قانون و انتظام کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں۔ ان کے تحت ہی مختلف جرائم کے لیے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کے دائرہ میں ملک کے تمام شہری آتے ہیں، البتہ ملک کی اقلیتوں، قبائل اور بعض دوسری برادریوں کو مذہبی وسماجی قانون کے تحت آزادی دی گئی ہے کیونکہ مذہبی، خاندانی وسماجی ضابطوں سے ہی مختلف مذہبی برادریوں اور گروپوں کی شناخت وابستہ ہے اور یہی ملک کی یکجہتی، سالمیت اور اتحاد کی بنیاد ہے، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔

جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اس سازش کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈ پر اصرار شہریوں کی مذہبی آزادی اور آئین کی اصل روح کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم، مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول اور ملک یکجہتی اور سالمیت کے لیے نقصاندہ ہے۔ تجویز پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کا ہے، جمعیۃ علماء ہند کسی بھی صورت میں اپنے مذہبی معاملات وعبادات کے طور طریقے سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ ہم سڑکوں پر احتجاج نہیں کریں گے لیکن قانون کے دائرے میں تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details