نئی دہلی:جماعت اسلامی ہند کے تحت مرکز، نئی دہلی میں 'دہلی کی 123 وقف جائیدادوں کا قضیہ' کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں 'انجمن حیدری' کے جنرل سکریٹری بہادر عباس نقوی نے وقف جائیدادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "دہلی میں وقف جائیدادوں کی دیکھ ریکھ کا ذمہ دار وقف بورڈ ہے۔ فی الوقت بیشتر جائیدادیں ملت اسلامیہ کی تحویل میں نہیں ہیں۔ کانگریس کے دور میں ان تمام جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی جگہ نوٹیفائی ہوئی ہی نہیں تو اس کا ڈی نوٹیفائی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس غلطی کی طرف نشاندہی کی گئی تو سرکار نے ایک 'ون مین کمیٹی' تشکیل دی جو ان جائیدادوں کے حقائق کا پتہ لگائے۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ تمام 123 جائیدادیں 'وقف نیچر' کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ رپورٹ سرکار کو پسند نہیں آئی، لہٰذا پھر سے ایک '' ٹو مین کمیٹی' تشکیل دی گئی۔ ان دونوں کمیٹیوں کے سامنے انجمن حیدری و دیگر متولیان پیش ہوئے اور متعلقہ دستاویزات پیش کیے، پھر بھی پروسیڈنگ فائنل اسٹیج تک پہنچ گئی اور یہ آرڈر آگیا کہ ان جائیدادوں کی آنر شپ کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔ حالانکہ یہ آرڈر غلط تھا۔ کیونکہ وقف بورڈ کسی وقف جائیداد کا مالک نہیں ہوتا ہے، نہ ہی کوئی ایک ادارہ یا فرد ان کا مالک ہوسکتا ہے۔ یہ جائیدادیں ملت کی ملکیت ہوتی ہیں۔ البتہ متولیان یا وقف بورڈ اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔ وقف بورڈ کو صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ ان جائیدادوں کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ اس کا استعمال صحیح ہورہا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی متولی وقف منشا کے خلاف کسی جائیداد کا استعمال کررہا ہے تو وقف بورڈ اس کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔