قومی دارالحکومت دہلی کے کانسٹیٹیوشن کلب آف انڈیا میں عوام کی ایک عدالت منعقد کی گئی جس میں عدالتوں کو اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے پر زور دیا گیا، اس تقریب میں سابق ججز اور معروف وکلاء نے شرکت کی۔ Janata ki Adalat at the Constitution Club Delhi
عدالت عظمی کے معروف وکیل اور راجیہ سبھا رکن کپل سبل نے کہا کہ 'کوئی بھی ادارہ یا تنظیم تبھی کامیاب ہوتی ہے جب وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے سماج میں تبدیلی لانے کا کام کرے۔ انہوں نے گجرات فسادات کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ذکیہ جعفری کے کیس میں ہم نے کوئی دستاویز پیش نہیں کیا ہم نے کہا کہ ہم صرف سرکاری دستاویز رکھیں گے کیونکہ وہ پختہ ثبوت تھے اور اسی پر ہی فیصلہ دیجیے۔'
دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں لگی جنتا کی عدالت انہوں نے کہا کہ 'جس طرح ایس آئی ٹی کو تفتیش کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کی گئی صرف ان کے بیانات کو ایس آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گجرات فساد کے تعلق سے باقی کچھ باتیں وقت آنے پر ملک کے سامنے رکھوں گا جو کچھ ہوا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالات کھڑے کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آج معاملہ یہ ہے کہ پہلے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے پھر تفتیش ہوتی ہے۔' Kapil Sibal on SIT investigation
اس موقع پر پروفیسر سیدہ سیدین حمید نے بتایا کہ 'عدالتوں کے تین فیصلے پر سوال کھڑے کیے گیے جن میں چھتیس گڑھ، گجرات اور پی ایم ایل اے شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جو عدالتوں کے فیصلوں پر سوال کرتے ہیں انہیں مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنتا کی عدالت سے یہ جو ایک جمود ہے وہ بدل جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ عوام کے حق میں فیصلے ہوں لیکن ان سب کے درمیان ایسا نہیں کہ ہم خاموش رہے لہذا اس وقت عدالت اندھیرے میں ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہم سمجھا کریں غیر جانبدار میڈیا کے ذریعے ایسے معاملے اٹھانے کی ضرورت ہے۔'
سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ 'ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایسے فیصلے دیے ہیں جس میں انسانی حقوق کارکنان پر حملہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہوا ہے ایسے میں ضروری تھا کہ عوام کے سامنے سابق ججز اور وکلاء کے ذریعے سپریم کورٹ کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اس میں بحث کی جائے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہ ملزموں کے حق میں فیصلہ دے رہے ہیں لیکن آج بھی کافی ججز اچھے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: بنگلور میں 'جنتا کی عدالت' پروگرام
ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ جلد ہی کورٹ اپنا رخ اور طریقہ بدلے گا اور یہ بھی ہمارے لیے ضروری ہے کہ جو اچھا فیصلہ دے اس کی بھرپور ستائش کی جائے اور جو خلاف فیصلہ دیں تو ہم اس کی مذمت کریں۔'