اردو

urdu

ETV Bharat / state

نئی تعلیمی پالیسی پر ڈی ٹی اے کی ناراضگی

دہلی ٹیچر ایسوسی ایشن (ڈی ٹی اے) نئی تعلیمی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کیے جانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تعلیمی اداروں میں مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا۔

the dta angry over new education policy in delhi
نئی تعلیمی پالیسی پر ڈی ٹی اے کی ناراضگی

By

Published : Jul 30, 2020, 8:18 PM IST

حکومت ہند کی نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ ہوچکا ہے۔ اس تعلیمی پالیسی نے پہلے سے موجود تعلیمی طرز کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں بہت سے نئے قواعد شامل کیے گئے ہیں جو بھارت کی اکثریت آبادی کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔ اب اعلیٰ تعلیم کو تین سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں دہلی ٹیچر ایسوسی ایشن (ڈی ٹی اے) نئی تعلیمی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کیے جانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی

نئی تعلیمی پالیسی میں ڈی ٹی اے کے انچارج پروفیسر ہنسراج سمن نے کہا کہ اب تین ہزار سے کم طلبا رکھنے والے انسٹی ٹیوٹ/کالج کی منظوری منسوخ کر دی جائے گی یا تو وہ بہت سارے اداروں کو بند کر دیں گے یا انضمام کریں گے۔

پریم چند کی ’رام چرچا‘ مہاتما گاندھی کو کیوں پسند تھی؟

دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) میں ایسے بہت سے کالج ہیں جہاں طلبا کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار کے درمیان ہے۔ اب یہ کالج بند ہو جائیں گے یا پھر دونوں کالجوں کو ضم کرکے ایک کالج بنا دیا جائے گا۔ ایسے میں ان اداروں کو حکومت خودمختار قرار دے کر سیلف فنڈڈ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سیلف فنڈز سے چلنے والے ادارے کو چلانے کے لیے یہ طلبا کی فیسوں کے ذریعہ وصولی کرے گا جس سے عام آدمی کے بچے داخلے سے محروم رہ جائیں گے۔

پروفیسر سمن نے مزید وضاحت دی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ایسے اداروں کو بند کرنے کا قاعدہ بنایا گیا ہے جو خود روزگار (سیلف ایمپلائمنٹ) اور انتظامی تعلیم (منیجمنٹ ایجوکیشن) کے لیے کھولے گئے تھے۔ حکومت کو اب انہیں بند کرکے ایک بڑے ادارے میں تبدیل کرنا چاہئے گی۔

پروفیسر سمن نے بتایا ہے کہ بورڈ آف گورننس (بی او جی) کے مسئلے کو نئی تعلیمی پالیسی سے جوڑ دیا گیا ہے، جس کے تحت اساتذہ کی تنخواہ اور ترقی کا حساب کتاب دکھایا جائے گا۔ اب بورڈ آف گورننس کو کسی استاد کی تنخواہ کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہی پرموشن بھی دے گا کیونکہ یہ ادارہ خودمختار ہوگا۔ لہذا کسی دوسرے ادارے یا حکومت کی مداخلت ممکن نہیں ہوگی۔

ایسی صورتحال میں فطری طور پر تعلیمی اداروں میں مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا اور انسٹی ٹیوٹ زیادہ معاوضہ لینے والے اساتذہ کی کمی کرے گا یا زیادہ تنخواہ والے اساتذہ کی تعداد کم کر دے گا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے کل پانچ برس بتائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ڈگری لینے والے طلبا کو ڈپلوما کا سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ نمبر کے بجائے طلبا کو گریڈنگ سسٹم کے تحت ان کی اہلیت کے معیار کا تعین کیا جائے گا۔

حکومت ایم فل کو ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اب طلبا براہ راست پی ایچ ڈی میں داخلہ لیں گے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم کی بہت سی سطحیں ہیں، لہذا طلبا تحقیق میں کم دلچسپی لیں گے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ امریکہ کی طرز پر اب کثیر الشعبہ تعلیم کی تحقیق (ملٹی ڈسپلینری ایجوکیشن ریسرچ) کا ضابطہ بنایا جائے گا۔ اس کے تحت کسی بھی مضمون کے ذریعے تحقیق میں جانے کا التزام ختم ہو جائے گا یعنی اب کسی بھی مضمون کے لوگ کسی اور مضامین میں تحقیقی کام کر سکتے ہیں۔ یہ اصول تحقیق کے کام میں سبجیکٹ کی ترجیح کو ختم کر دے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details