تسمیدا کے اہل خانہ نے سنہ 2005 میں پہلی بار میانمار سے حالات خراب ہونے کے بعد بنگلہ دیش کا رخ کیا، اس وقت تسمیدا کی عمر محض 6 برس تھی۔ بنگلہ دیش ہی میں تسمیدا نے اسکولنگ شروع کر دی تھی۔
سنہ 2012 میں جب میانمار میں حالات مزید خراب ہوئے تو پناہ گزینوں کا سیلاب بنگلہ دیش کی طرف رخ کیا، تاہم بنگلہ دیش کی حکومت نے غیرقانونی پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کی شروع کی۔ اس وقت تسمیدا کے اہل خانہ کو دوسری بار نقل مکانی کرنی پڑی۔
سنہ 2012 میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے بعد کئی روہنگیا مسلمانوں نے اپنی جان بچانے کے لیے بنگلہ دیش اور بھارت کی طرف نقل مکانی کی۔
تسمیدا ان 40 ہزار روہنگیائی پناہ گزینوں میں سے ایک ہیں، جو بھارت کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔
تسمیدا روہنگیا پناہ گزینوں کی اولین لڑکی ہونگی، جو کالج میں داخلہ لینے جا رہی ہیں۔
لیکن تسمیدا کی اسکولنگ اور کالجز کا یہ سفر اتنا آسان نہیں رہا۔ اس کے لیے انھیں کئی زبانیں سیکھنی پڑیں۔ طرہ یہ کہ والدین کے پاس پیسے کمی تھی۔
تسمیدا نے یو این ایچ سی آر اور اپنے بھائی کی مدد سے کمپیوٹر اور ہندی کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے 10ویں جماعت تک سرکاری اسکول میں پڑھا اور 11ویں اور 12یں جماعتوں کی تعلیم پرائیویٹ اسکول سے حاصل کیں۔
تسمیدا کو کالج کی پڑھائی کے لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے والدین نے تسمیدا کی تعلیم کے لیے آن لائن فنڈنگ جمع کرنا شروع کیا ہے۔