نئی دہلی: سپریم کورٹ میں منگل کو ان درخواستوں کی سماعت ہوئی جس میں نوآبادیاتی دور میں ملک سے غداری کی سزا کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے اس معاملے پر سماعت کی۔سپریم کورٹ نے ملک سے غداری کے قانون (انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124A) کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو کم از کم 5 ججوں کی بنچ کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ اس کیس کو ایک بڑی بنچ کے حوالے کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ 1962 کے فیصلے کیدار ناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار میں 5 ججوں کی بنچ نے اس شق کو برقرار رکھا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا کی زیرقیادت بنچ نے کہا کہ ایک چھوٹی بنچ ہونے کے ناطے کیدار ناتھ پر شک کرنا یا اسے مسترد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پرمشتمل بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ کیدار ناتھ کا فیصلہ بنیادی حقوق کی تنگ سمجھ کی بنیاد پر کیا گیا تھا جو اس وقت رائج تھا۔ اس کے علاوہ، کیدار ناتھ نے اس مسئلے کا صرف آرٹیکل 19 کے زاویے سے جائزہ لیا۔
گزشتہ سال 11 مئی کو سپریم کورٹ نے مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں کو تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن ) کے سلسلے میں جاری تمام تحقیقات کو معطل کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی ایف آئی آر درج کرنے یا کوئی زبردستی اقدام کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اور یہ بھی ہدایت کی تھی کہ تمام زیر التواء مقدمات، اپیلوں اور کارروائیوں کو التوا میں رکھا جائے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے اولین مشاہدے میں کہا تھا کہ آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کی سختیاں موجودہ سماجی حالات کے مطابق نہیں ہیں، اور ان کا مقصد ایسے وقت کے لیے تھا جب یہ ملک نوآبادیاتی حکومت کے تحت تھا۔
یہ بھی پڑھیں:غداری کے قانون کو بہتر بنایا جائے تو اس کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے، ششی تھرور