نئی دہلی:سپریم کورٹ نے بغیر کسی درست شناختی ثبوت کے 2000 روپے کے نوٹ تبدیل کرنے کی اجازت سے متعلق دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر جلد سماعت کرنے سے جمعرات کو انکار کر دیا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی تعطیلاتی بنچ نے ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر اپیل پر جلد سماعت کے لیے فہرست دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار گرمیوں کی تعطیلات کے بعد چیف جسٹس کے سامنے اس معاملے کا ذکر کر سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بدھ کو ہی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ انہوں نے آج 'خصوصی تذکرہ' کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ اپادھیائے کی جانب سے دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کا 29 مئی 2023 کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ عرضی گزار کا استدلال ہے کہ 19 اور 20 مئی کو جاری کردہ آر بی آئی کے نوٹیفکیشن نے غیر قانونی رقم کو قانونی بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس لیے یہ واضح طور پر من مانی، غیر معقول اور مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
ہائی کورٹ نے پیر کے روز اپادھیائے کی پی آئی ایل کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ یہ نوٹوں کی واپسی سے متعلق خالصتاً ایک پالیسی فیصلہ ہے اور اسے ٹیڑھا یا من مانا نہیں کہا جا سکتا یا یہ کہ اس نے بلیک منی، منی لانڈرنگ ، منافع خوری یا بدعنوانی کو فروغ دیا ہے۔ ایڈوکیٹ اپادھیائے نے عدالت عظمیٰ میں داخل کی گئی اپنی خصوصی اجازت کی درخواست میں کہا ہے کہ ہائی کورٹ یہ ماننے میں ناکام رہی کہ آر بی آئی نے نوٹیفکیشن میں قبول کیا کہ زیر گردش 2000 روپے کے نوٹوں کی کل قیمت 6.73 لاکھ کروڑ روپے سے کم ہو کر 3.62 لاکھ کروڑ روپے رہ گئی ہے۔