دہلی:سپریم کورٹ نے آج واضح کردیا کہ یوپی اور دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کی کارروائی پر فی الحال کوئی پابندی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں اگلی سماعت 10 اگست کو ہوگی۔ آج سماعت کے دوران، ایڈوکیٹ دشینت دوے، درخواست گزار جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے، جسٹس بی آر گنوائی کی بنچ کے سامنے پیش ہوئے، آج سماعت کا آغاز اسی دلیل کے ساتھ ہوا کہ یہ معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر ایک مخصوص طبقہ کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر کیا جا رہا ہے اور یہ رجحان ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی پھیل رہا ہے، اگر اسے بروقت روکا نہیں گیا تو قانون کی حکمرانی متاثر ہوگی۔ یوپی کے بعد مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں بھی یہی رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنا شہری ایجنسیوں کا کام ہے، لیکن کچھ ریاستوں میں پولیس افسران یہ کام کر رہے ہیں۔
ان کی دلیل کے جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ دوسری کمیونٹی جیسا کوئی لفظ نہیں ہے، بھارت کی ہر کمیونٹی بھارتی شہری ہے، بلڈوزر کی کارروائی قواعد کے مطابق کی جا رہی ہے، اسے کسی خاص فرقہ سے جوڑ کر غیر ضروری طور پر سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ ’’ہر کسی کو قانون کی پابندی کرنی ہوگی، کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیے‘‘. سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل دشینت دوے نے گجرات اور مدھیہ پردیش میں غیر قانونی بلڈوزر کارروائی کے بارے میں بتایا جس کے لیے انہوں نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے گجرات اور مدھیہ پردیش حکومت سے بھی جواب طلب کیا ہے۔ تمام فریقین سے 8 اگست تک جواب داخل کرنے کو کہا گیا ہے۔