نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جسٹس پرشانت کمار مشرا نے بدھ کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کی غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کیس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔ جس کی وجہ سے سماعت بدھ کے روز ملتوی کر دی گئی۔ اس بنچ کے دوسرے جج جسٹس بوپنا نے کہا کہ کچھ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اس معاملے کی سماعت اب 17 اگست کو دوسری بنچ کرے گی۔
ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 18 اکتوبر کو خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ عمر خالد نے عدالت کے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جسے سماعت کے لیے جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس مشرا کی بنچ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ عمر خالد کی درخواست پر عدالت عظمی نے مئی 2023 میں دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔اور 12 جولائی کو دہلی پولیس نے عرضی پر جواب دینے کے لیے کچھ وقت مانگا تھا۔
عمر خالد کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل کپل سبل نے اس وقت کہا تھا کہ ضمانت کے معاملے میں کیا جواب دائر کیا جائے؟یہ شخص دو سال اور 10 ماہ سے جیل میں ہے۔ ہائی کورٹ نے گزشتہ سال 18 اکتوبر کو خالد کی ضمانت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ دوسرے شریک ملزمان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ان کے خلاف الزامات پہلی نظر میں سچ ہیں۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ پہلی نظر میں ملزم کی کارروائیاں انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت دہشت گردانہ کارروائیاں کے طور پر معلوم ہوتی ہیں۔ اس سے قبل مارچ 2022 میں کڑکڑڈوما کی ضلعی عدالت نے عمر خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
قابل ذکر ہے کہ UAPA اور تعزیرات ہند (IPC) کی مختلف دفعات کے تحت فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے فسادات میں مبینہ طور پر 'ماسٹر مائنڈ' کے الزام میں عمر خالد اور شرجیل امام سمیت کئی دیگر کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔ جس کے بعد دہلی پولس نے عمر خالد کو ستمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کے دوران پھوٹ پڑے تھے۔