ہاکی کے لیجینڈ اشوک دھیان چند نے بہت کم عمر میں ہی گیند پر کنٹرول اور کھیلوں میں مہارت کا مظاہرہ کرکے ماہرین کے درمیان باپ بیٹے کے مابین موازنہ کی بحث چھیڑ دی تھی۔
حالانکہ اشوک دھیان چند اپنے والد میجر دھیان چند سے کسی بھی طرح کے موازنہ کو خارج کرتے ہیں۔
اولمپیئن اشوک دھیان چند سے خصوصی گفتگو ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کیریئر اور ہاکی کی موجودہ صورت حال پر بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ ہاکی اولمپئن انعام الرحمٰن اور ان کے کھیل سے کافی متاثر تھے۔ انعام الرحمٰن اشوک کمار کے آئیڈیل بھی تھے۔
ان کے ساتھ کھیلنے کی خواہش اور سیکھنے کی جستجو نے انہیں موہن بگان کلب کولکاتہ جانے کے لئے مجبور کیا۔ اشوک دھیان چند کے والد میجر دھیان چند کی یہ کبھی خواہش نہیں تھی کہ ان کا بیٹا ہاکی کو اپنا کیریئر بنائے جس میں انہوں نے خود بہت شہرت حاصل کی تھی۔ اس کی وجہ تھی کہ شہرت حاصل کرنے کے باوجود دھیان چند کی مالی طور پر حالت بہت اچھی نہیں رہی، اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی اس صورتحال سے دوچار ہو۔
لیکن اشوک کمار کے شوق، جنون اور اولمپئین بننے کی آرزو اور ان کے گھر میں کئی لوگوں کے ہاکی کھیلتے ہوئے دیکھنا ان کو ہاکی کھیلنے سے روک نہیں سکا اور انہوں نے ہاکی کو اپنا کیریئر بنایا۔
والد دھیان چند کی خواہش تھی کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کریں، لیکن اشوک کمار نے کام ادھورا چھوڑ کر ہاکی کلب جوائن کر لیا۔
جس کے لئے انہیں ڈانٹ یہاں تک کہ ان کی پٹائی بھی ہوئی لیکن جنون اور شوق جیت گیا۔ انہوں نے پہلے جونیئر اسکول ٹیم میں شامل ہوکر کھیلنا شروع کیا، پھر انہوں نے کلب کے لئے ہاکی کھیلنا شروع کیا اور اتر پردیش کی نمائندگی کرتے ہوئے مسلسل 4 سال ہاکی کھیلی۔
اشوک کمار سنہ 1966-1967 میں راجستھان یونیورسٹی کے لئے کھیلے۔ اس کے بعد وہ کولکاتہ چلے گئے اور انہوں نے موہن بگان کلب کے لئے کھیلنا شروع کیا۔
وہ بنگلور میں 1971 کے قومی چیمپیئن شپ میں بنگال ٹیم کے لئے کھیلے تھے۔ اس کے بعد اشوک کمار انڈین ایئر لائن میں بطور سینئر فلائٹ پرسن شامل ہوئے اور قومی مقابلوں میں نمائندگی کی۔
اشوک دھیان چند نے بھارت ہاکی کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ ایسٹرو ٹرف کو قرار دیا۔
انہوں نے کہا 'ہاکی فیلڈ میں بچے ہاکی لکڑی کی اسٹک سے شروع کرتے تھے۔ ایسٹرو ٹرف کی آمد کے بعد نوجوان ہاکی سے زیادہ کرکٹ کی طرف مائل ہوگئے۔
انہوں نے کہا 'ہاکی میں تمام تر سہولیات کے باوجود اڑیسہ میں منعقدہ ورلڈ کپ میں ہندوستانی ہاکی ٹیم چھٹے نمبر پر رہی۔ ماضی میں اتنی سہولیات میسر نہیں تھیں، لیکن ہم یورپی ہاکی پر غالب تھے'۔
انہوں نے کہا 'ہاکی میں ہندوستان کے تسلط کو ختم کرنے کے لئے یوروپی ممالک نے ایسٹروٹرف پر ہاکی کھیلنا شروع کیا، حالانکہ ابتدائی مرحلے میں ہی امریکہ نے اس کی مخالفت کی تھی، لیکن ہندوستان مضبوط انداز میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکا تھا، جس کی وجہ سے گھاس کے میدان کے بجائے ایسٹرو ٹرف پر ہاکی کھیلی جانے لگی'۔
انہوں نے کہاکہ'کہا جاتا ہے کہ میدان کی ہاکی کلائی کے زور پر کھیلی جاتی تھی جس کا جواب یوروپی ممالک کے پاس نہیں تھا۔لہذا انہوں نے ہم سے ایشیائی ہاکی چھین لی'۔
یہ کلاسیکل ہاکی تھی۔ایسٹروٹرف ہاکی میں اسٹیمنا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہندوستانی کھلاڑی پیچھے رہ گئے۔ دوسرے ہندوستان میں ہاکی کے کھلاڑیوں کی تعداد کے مقابلہ میں ایسٹروٹرف نہیں ہے۔
انہوں نے ہاکی ورلڈ کپ کی یاد تازہ کی جب ہندوستانی ہاکی ٹیم نے 1975 کے ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا تھا۔
انہوں نے بتایا 'پہلے ہاف میں ہی پاکستان کی ٹیم نے 18ویں منٹ میں گول کرکے برتری حاصل کرلی لیکن اس کے دس منٹ بعد گول کر کے مقابلہ ایک ایک گول سے برابر کر دیا'۔
اشوک دھیان چند بھارتی ہاکی کے لیجنڈ میجر دھیان چند کے بیٹے ہیں۔ انہیں بھارت حکومت نے سنہ 1974 میں ارجن ایوارڈ سے نوازا۔ اشوک نے تین ورلڈ کپ کھیلے، وہ سنہ 1975 میں ورلڈ کپ جیتنے والی ہندوستانی ہاکی ٹیم کے رکن تھے۔
پہلا ورلڈ کپ سنہ 1971 میں کھیلا گیا جس میں بھارتی ٹیم نے کانسے کا تمغہ جیتا تھا۔ اس کے بعد سنہ 1973 میں ورلڈ کپ سلور میڈل جیتنے والی ٹیم کے بھی یہ رکن تھے۔
اشوک کمار دو بار اولمپک کھیلوں میں بھارت کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ پہلی بار میونخ میں 1972 میں بھارت نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا اور پھر 1976 میں مونٹریال میں بھارت ساتویں نمبر پر رہا تھا۔
اشوک کمار بھارت کے تین ایشیئن گیمز (1970 ، 1974 اور 1978) کا بھی حصہ رہے ہیں، اور ان تینوں میں بھارت نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔