ریزرو بینک آف انڈیا نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مائیکرو، سمال اور میڈیم صنعتیں اپنی بقا کےلئے شدید دباو سے جوجھ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان صنعتوں کو وبا کے دوران بھی کوئی مدد نہیں ملی۔ کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرکز کی جانب سے دیا گیا امدادی پیکیج چھوٹی صنعتوں کو سہارا دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ یہ ان چھوٹی صنعتوں کی بد نصیبی ہے کہ انہیں بر وقت مدد نہیں مل پائی۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو بحالی کےلئے 45 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ جبکہ بینک اُنہیں محض مطلوبہ مدد کا 18 فیصد ہی فراہم کر پائیں گے۔ چھوٹی صنعتیں ملکی معیشت کی مسلسل مدد کرتی رہی ہیں۔ ایک جانب ان صنعتوں نے گیارہ کروڑ روزگار فراہم کئے ہیں اور دوسری جانب وہ وسیع پیمانے پر اشیاء تیار کررہی ہیں لیکن ان کے اس کنٹری بیوشن کے باوجود مصیبت کے ایام میں وہ مدد کےلئے راہ تک رہی ہیں۔ حکومت کو ان صنعتی اداروں کو مدد کے لئے یہ سوچ کر سامنے آنا چاہیے کہ ان کی مدد کرکے در اصل وہ ملکی مفاد کو تقویت پہنچائے گی۔
متعلقہ وزارت کے مطابق ملک میں اس وقت 6.3 کروڑ چھوٹے صنعتی ادارے ہیں جو ملک کے جی ڈی پی میں تیس فیصد کا کنٹری بیوشن فراہم کررہے ہیں۔ پڑوسی ملک چین میں تقریباً 3.8 کروڑ سمال اور میڈیم انڈسٹریز ملک کے جی ڈی پی کا 60 فیصد کنٹری بیوٹ کررہی ہیں۔ چین کو 80 فیصد روزگار اسی شعبے سے فراہم ہورہا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بیجنگ میں ہر دن سولہ سے اٹھارہ ہزار نئی کمپنیاں معرضِ وجود آرہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت میں چھوٹی صنعتوں کو اس طرح کی حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے اور ان کا وجود داو پر لگ گیا ہے۔