نئی دہلی:ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ کردستان کی تنظیمیں اور مہسا کی حامی خواتین حجاب جلا کر اور بال کاٹ کر اپنا احتجاج درج کرا رہی ہیں۔ Shia women's response to Mahsa Amini case
ایسے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے دہلی میں ایرانی حکومت کے نمائندے اور ایران کلچر ہاؤس کے کلچرل کونسلر ڈاکٹر محمد علی ربانی سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ جس طرح مغربی ممالک میں اگر کوئی خاتون مناسب لباس یا حجاب میں نظر آئے تو اس کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں اور چھوٹی موٹی خبریں سننے میں آتی ہیں۔ اسی طرح ایران میں بھی نامناسب لباس یا بغیر حجاب میں نظر آتی ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ایرانی قوانین کے تحت وہ مناسب لباس زیب تن کریں، چنانچہ ان سے بھی صرف یہی کہا گیا تھا اور مہسا امینی کو اسی قانون کے تحت حراست میں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا نے اس معاملے کو ہوا دینے کا کام کیا اور اس خبر سے اپنے مفاد پورے کرنا کا کام کیا جا رہا ہے۔
اس دوران بھارت میں رہنے والی شیعہ خواتین سے بھی بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ حیا کسی پردے کی محتاج نہیں ہے بلکہ وہ تو آنکھوں میں ہوتی ہے البتہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ انہوں نے نامناسب لباس کیوں پہنا۔ مہسا آمینی چند روز قبل ایرانی کردستان کے ایک شہر سے اپنے خاندان کے ساتھ اپنے رشتے داروں سے ملنے تہران آئی تو انہیں 13 ستمبر کو پولیس نے اسے غیرمناسب پردہ کرنے پر گرفتار کیا اور دیگر کے ساتھ جیل منتقل کر دیا۔ مہسا نے اپنے بھائی کو بتایا تھا کہ اسے ایک گھنٹے میں رہا کر دیا جائے گا تاہم ایسا نہ ہوا بلکہ وہ خود ہی جسم کی قید سے رہائی پا گئی۔