نئی دہلی: کبھی پیگاسس، کبھی ہیڈن برگ اور کبھی سوروس کے تبصرے مسلسل بھارتی سیاست میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سنہ 2014 میں جب سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، غیر ملکی ایجنسیوں کی رپورٹیں یا پھر ریسرچ بھارتی سیاست میں ہلچل مچا رہی ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی ان غیر ملکی ایجنسیوں کی جانب سے ایسے معاملات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں۔ ملک کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ امریکی ارب پتی سرمایہ کار جارج سوروس نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کی منتخب حکومت کو جمہوری طریقے سے گرائیں گے۔ کہیں نا کہیں یہ بیان کسی بھی ملک کی حکومت کے لیے انتہائی قابل اعتراض تبصرہ ہے جو کسی غیر ملکی تاجر کی جانب سے دیا گیا ہو۔ اس پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی اسے بھارت کے جمہوری نظام میں براہ راست مداخلت قرار دے رہی ہے۔
تاہم سوروس کے اس بیان پر جو انہوں نے میونخ سیکیورٹی کونسل میں بھارت، وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی سرمایہ کار گوتم اڈانی کے حوالے سے دیا تھا، اس پر مرکزی حکومت اور بی جے پی سمیت اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی تنقید کی تھی۔ حکمران جماعت یہ سوال ضرور اٹھا رہی ہے کہ غیر ملکی ایجنسیوں کو اتنی طاقت کہاں سے مل رہی ہے، کیا اس کے پیچھے نریندر مودی کے مخالفین بھی شامل ہیں، کیونکہ اس سے پہلے کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں پیگاسس اور ہنڈن برگ کے معاملات پر پارلیمنٹ میں تاریخی ہنگامہ کرچکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی اس مسئلہ کو زور شور سے اٹھانے والی ہے کہ 2014 کے بعد سے غیر ملکی ایجنسیاں ایک منتخب جمہوری اور پاپولر حکومت پر بار بار کیسے انگلیاں اٹھاتی رہی ہیں۔