اردو

urdu

'فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی ہی تشدد کا باعث بنی'

شہریت ترمیمی قانون بل پاس ہونے کے بعد دہلی میں ہوئے مظاہروں میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہین باغ اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مظاہرے انتہائی پرامن طریقے سے چل رہے تھے۔

By

Published : Jul 17, 2020, 5:35 PM IST

Published : Jul 17, 2020, 5:35 PM IST

press meet
press meet

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے عبد السلام نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد پر دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہندوتوا جماعتوں کی فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی ہی تشدد کا باعث بنی ہے اور دہلی پولیس نے مجرموں کو بچانے کے لئے بے قصور لوگوں کو پھنسایا ہے۔

انہوں نے کہا 'کمیٹی کے ذریعہ شواہد جمع کئے جانے اور تشدد کے متاثرین کا انٹرویو لینے کے بعد تیار کی گئی رپورٹ ایک اہم دستاویز ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کے دعوے جھوٹے اور ان کی کارروائی مسلم متاثرین کے خلاف ہے'۔

انہوں نے کہا 'شہریت ترمیمی قانون پاس ہونے کے بعد دہلی میں ہوئے مظاہروں میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے اور شاہین باغ اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مظاہرے انتہائی پرامن طریقے سے چل رہے تھے'۔

رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019 سے لے کر فروری 2020 کے دوران دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے انتخابی مہم میں بی جے پی رہنماوں کی طرف کئی ایسے بیان اور تقرریاں سامنے آئی تھیں جن میں لوگوں کو سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد کے لئے کھلے عام مشتعل کیا گیا تھا'۔

رپورٹ میں اس شبہہ پر بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ تشدد منصوبہ بند تھا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں باہر سے بھی لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدارس، ایک مزار اور ایک قبرستان کا ذکر کیا گیا ہے جن پر تشدد کے دوران حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔

کمیٹی نے جن لوگوں سے انٹرویو لیا انہوں نے بتایا 'پولیس اس وقت بھی مداخلت کرنے یا لوگوں کی مدد کرنے سے جھجھک رہی تھی جب ان کی آنکھوں کے سامنے تشدد ہو رہا تھا۔ کئی موقعوں پر پولیس خود بھی تشدد میں شریک رہی اور انہوں نے حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ معاملوں میں خود متاثرین کو ہی گرفتار کر لیا گیا جب وہ نامزد افراد کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لئے آگے آئے'۔

رپورٹ میں پاپولر فرنٹ سمیت دیگر مسلم تنظیموں، قائدین اور افراد کے تشدد میں شامل ہونے کے پولیس کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details