سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے متعدد سوالات کی بھی جانچ کی ہے جن میں فینانس ایکٹ 2017 کے سیکشن 156 سے 189 کی قانونی حیثیت بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ آج فینانس بل 2017 کی دفعات کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ سنائے گا جس سے مختلف ٹریبونلز کی تشکیل اور کام کو متاثر ہوتا ہے۔
درخواستوں میں فینانس ایکٹ 2017 کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ حکومت ٹریبونل ممبران کی شرائط و ضوابط کا فیصلہ کرنے کے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئی ہے۔
مرکز نے فینانس بل 2017 کو منی بل کی حیثیت سے اس کا جواز پیش کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ اس میں ایسی دفعات موجود ہیں جو بھارت کے مستحکم فنڈز سے ٹربیونلز کے ممبران کو تنخواہوں اور الاؤنس کی ادائیگی کے ساتھ تصفیہ کرتی ہے۔
درخواستوں میں منی بل کی حیثیت سے فینانس ایکٹ کی منظوری کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ فیصلے میں منی بلز اور فینانس بلز کے درمیان اختلافات اور لوک سبھا اسپیکر کے اختیارات کو منی بل کی حیثیت سے پیش کرنے کا حوالہ بھی دیا جائے گا۔
جسٹس این وی رمنا، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بنچ نے 2 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔