ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر جس میں چیف جسٹس نے ان سے اور دیگر وکلاء سے پوچھا تھاکہ وہ عدالت کو بتائیں کہ انہیں بحث مکمل کرنے میں کتنا وقت اور لگے گا عدالت کو بتایا کہ وہ مسلم فریق کی نمائندگی کرنے والے دیگر وکلاء سے صلاح و مشورہ کرکے عدالت کواس بارے میں کل آگاہ کریں گے۔
چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں فریق مخالف یہ دعوی کررہا ہے بابری مسجد کے اندرونی صحن پر رام کا جنم ہوا تھا اور وہ وہاں پرکٹ ہوئے تھے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ اگر ہم اس دعوی کا موازنہ کیلاش مندر سے کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ وہاں شیو لنگم جیسی کوئی چیز پرکٹ ہوئی تھی لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ایک منصوبہ سازش کے تحت مورتی کو بیرونی صحن سے اندرونی صحن میں منتقل کردیا گیا اور بعد میں اسے بھگوان کے پرکٹ ہونے کا دعوی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رام کا جنم کہاں ہوا اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ فریق مخالف کے دعوی پر اعتراض ہے جس نے رام کا جنم استھان مسجد کے اندرونی صحن میں بتایا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سوئم بھو(خودبخودظاہرہونے والا) کے لیئے ضروری ہے کہ کوئی چیزمثبت طور پر اچانک وجود میں آئے اور اس کی خصوصیات بھی ظاہر ہوں،نیز کسی بھی جگہ پریکرمایعنی کہ طواف کرنے سے وہ جگہ خصوصی مذہبی جگہ نہیں ہوجاتی اگر ایساہی ہونے لگاتو کوئی بھی کہیں بھی پریکرماکرکے اس جگہ کی حق ملکیت پر اپنا دعویٰ پیش کردیگا۔
ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ مورتی کی شکل میں سوئم بھویا تو ازخوداظہارکی شکل اختیارکرسکتاہے یاپھر انسان بھی، ہندوفریق رام جنم استھان کی صحیح جگہ بتانے میں ناکام رہے ہیں اس لئے صرف آستھا سوئم بھوہونے کے لئے کافی نہیں ہے،ڈاکٹر راجیودھون نے وضاحت کی کہ ایک ایسے اظہار کا ہونا ضروری ہے جسے ہم بھگوان کے روپ میں تسلیم کرسکتے ہیں اس پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ دیوتاکا ایک روپ انسان کے روپ میں بھی ہوسکتاہے اور نہیں بھی ہوسکتاہے یا کسی دوسری شکل میں بھی ہوسکتاہے اس پر ڈاکٹر راجیودھون نے جواب دیا کہ ہندووں کا اعتقادہے اوراگر ایسا ہوتاہے تو اس کی پوجاکی جاتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ بابری مسجد وقف کی جائدادہے اور سنی وقف بورڈکا اس پر حق ہے انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ 1885 کے بعد ہی بابری مسجد کے باہر رام چبوترے کو رام جنم استھان کے طورپر مانا گیااس موقع پر ڈاکٹر راجیودھون نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ ہے رام کے وجودپہ ہندوستان کو ناز، اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند، اس شعر کو پڑھنے کہ بعد انہوں نے کہا کہ رام کی بزرگی پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس بات پر بھی اختلاف نہیں ہے کہ بھگوان رام کا جنم ایودھیامیں کہیں ہواتھا لیکن اس طرح کی بزرگی کسی مقام کو ایک قانونی حیثیت میں تبدیل کرنے کا متبادل کب ہوگئی اسی طرح جنم اشٹھمی بھگوان کرشن کے جنم دن کے طورپر منایا جاتاہے لیکن کرشن قانونی شخصیت نہیں ہیں۔
ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ فریق مخالف نے یہ دعوی کیا ہے کہ متنازعہ عمارت کے 14 کسوٹی ستونوں پر لوٹس یعنی کہ کنول کے پھول کا نشان پا یا گیا تھا جو مسجد کے فیچر میں نہیں آتا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دینے میں غلطی کی ہے کیونکہ ستونوں پر کسی مورتی کے نشان نہیں ملے تھے بلکہ ستونوں پر ایسے ہی کنول کا پھول بنا ہوا تھا اور یہ ممکن ہے مزدوروں نے خودبنا دیا ہوگا، جیساکہ قطب مینار پر بھی ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں جیسے نشان ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ عمارت کی تعمیر کرنے والے مزدوروں نے انہیں بنا دیا ہوگاجیساکہ تاج محل کی تعمیر بھی صرف مسلم مزدروں نے نہیں کی تھی بلکہ دیگر مذاہب کے مزدور بھی تعمیر میں شامل تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ اسلامی فن تعمیرات میں مسجد کی تعمیر میں گول گنبد ضرور بنایا جاتا ہے جبکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں یہ نہیں دکھائی دیتا، کوئی تِکونی عمارت بناتا ہے تو کوئی چوکور۔