نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ معاملے پر سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ 'پچھلے سو برسوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اقلیتی ٹیگ کے بغیر قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ یہ صرف برانڈ کا نام ہے۔' اس معاملے کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں سات ججوں پر مشتمل ہے۔ اس بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتہ، منوج مشرا اور ستیش چندر شرما شامل ہیں۔ اے ایم یو کے اقلیتی درجہ کے معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔
جسٹس دتہ نے درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ شادان فراست سے پوچھا، "پچھلے سو برسوں میں اقلیتی ادارے کے ٹیگ کے بغیر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ہم باشا (Basha) پر آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟ قابل ذکر ہے کہ 1967 میں، ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے فیصلہ کیا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی تھی، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب پارلیمنٹ نے 1981 میں اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا تو یونیورسٹی کو اپنی اقلیتی حیثیت واپس مل گئی۔
جسٹس دتا نے مزید استفسار کیا کہ 'اقلیتی ٹیگ کے بغیر کس طرح سے کوئی بڑا نقصان ہوگا؟ ادارہ (اے ایم یو) قومی اہمیت کا ادارہ بنا ہوا ہے۔ اس سے لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف برانڈ کا نام ہے۔' ایڈوکیٹ شادان فراست نے کہا کہ "باشا تک، یہ اقلیتی ادارہ سمجھا جاتا تھا… آج، 1981 کی ترمیم پر 'لارڈ شپ کے اسٹیٹس کو' حکم کی وجہ سے یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے۔ اگر 'لارڈ شپ' باشا فیصلے کو برقرار رکھتے ہیں تو پہلی بار واضح طور پر یہ ایک غیر اقلیتی ادارہ بن جائے گا۔" ایڈوکیٹ فراست نے کہا کہ مسلم طالبات کو خاص طور پر اقلیتی درجے کی وجہ سے اے ایم یو میں بھیجا جاتا ہے اور اس پر زور دیا کہ یہ ایک سماجی حققت ہے۔
جسٹس شرما نے استفسار کیا کہ کیا بھارت میں کوئی اور اقلیتی یونیورسٹی ہے جسے مرکز کی طرف سے سو فیصد فنڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کو کافی حد تک مرکز کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور اس میں اور بھی ہو سکتے ہیں، لیکن ابھی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔'
دن بھر کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس آف انڈیا نے زبانی طور پر تبصرہ کیا کہ "آرٹیکل 30 کا مقصد یہ نہیں ہے، اگر میں کہوں تو اسے (آرٹیکل 30) کو اقلیتوں کا گھٹو بنانے یعنی انہیں ایک جگہ جمع کرنے کے لیے مت استعمال کریں..."، انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دوسرے لوگوں کو انتظامیہ سے وابستہ ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو اس سے اقلیتی ادارے کے طور پر آپ کے کردار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔'
مزید پڑھیں: اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے دیا جائے گا، سپریم کورٹ میں سماعت
بنچ نے آرٹیکل 30 (1) میں استعمال ہونے والے لفظ "انتخاب" پر زور دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ اقلیتوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یا تو انسٹی ٹیوٹ کا خود انتظام کریں یا دوسروں سے کروائیں۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ "آرٹیکل 30 یہ حکم نہیں دیتا ہے کہ انتظامیہ خود اقلیت کے پاس ہو۔ آرٹیکل 30 جس چیز پر غور کرتا ہے اور اسے تسلیم کرتا ہے وہ حق ہے، بنیادی طور پر انتخاب کا حق، اقلیتوں کو اس طریقے سے انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جسے وہ مناسب سمجھیں۔"
سی جے آئی نے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل سے استفسار کیا کہ "آپ کی دلیل یہ ہے، جس پر ہم الگ سے سنیں گے، اگر آپ ایکسپریشن ایڈمنسٹر کو بہت سخت معنوں میں لاگو کرتے ہیں، یعنی انتظامیہ میں کوئی باہر والا نہیں ہونا چاہیے یا اسے اس بنیاد کو استثنیٰ دیں کہ 180 میں سے صرف 37 ہوں تو اقلیت کبھی بھی یونیورسٹی نہیں چلا سکتی۔"