مہاتما گاندھی کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ بھارت کی خوشحالی کی شاہ کلید اسکے دیہی علاقوں کی ترقی میں ہے۔البتہ ملک کی آزادی کی سات دہائیوں کے دوران عدم مرکزیت کی روح تک کہیں نظر نہیں آئی ہے۔حالانکہ دیہی عوام کو فوری انصاف فراہم کرانے کی خاطر گرام نیالے ایکٹ 2009متعارف کرایا تو گیا ہے لیکن اسکے نفاذ میں سُستی ہے۔
نیشنل پروڈکٹیویٹی کونسل کے مطابق فقط 11ریاستوں نے ہی سنہ 2009اور سنہ 2018کے دوران دیہی عدالتوں میں تقرریوں کیلئے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں ۔'نیشنل فیڈریشن آف سوسائٹیز فار فاسٹ جسٹس' نے گذشتہ سال مفادِ عامہ کی ایک عرضی داخل کی تھی اور اس جانب توجہ دلائی تھی کہ مجوزہ 320 دیہی عدالتوں میں سے فقط 204ہی کام کرنے کی حالت میں ہیں۔
سپریم کورٹ ٹربیونل نے دیہی عدالتوں کے خلاف دائر مقدمے کے ایک حصے کے طور پر متعدد ہدایت جاری کی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ غریب دیہی عوام موجودہ عدالتی نظام کا شکار بن رہی ہیں اور یہ عدالتیں آئین کے آرٹیکل 39 اے کے موافق نہیں ہے۔
جسٹس این وی رامانا، سنجیو کھنہ اور کرشنا موراری پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے ایک ہدایت یہ بھی دی تھی کہ جن ریاستوں نے ابھی تک دیہی عدالتوں کے قیام کے اقدامات نہیں کیے ہیں انہیں چار ہفتوں کے وقت کے اندر لازمی نوٹیفکیشن جاری کردینے چاہیئں۔
اس بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ متعلقہ ریاستوں کے چیف جسٹس ریاستی حکومتوں کے ساتھ مشورہ کرکے دیہی عدالتوں کا قیام اور انکے لیے ملازمین کی بھرتی کا عمل تیز کرائیں۔سابق ہدایات کے مطابق اعلیٰ عدالت نے چھتیس گڑھ، گجرات، تلنگانا، مغربی بنگال، اُتراکھنڈ اور اُڑیسہ کی جانب سے بیاناتِ حلفی پیش نہ کیے جانے کو ایک سنگین جرم کے بطور لیا۔چناچہ عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے میں بڑی سنجیدگی دکھائی ہے، اس سے دیہی علاقوں میں نظامِ انصاف قائم ہونے کے حوالے سے امید کی کرن نظر آئی۔
بھارت میں گاؤں اور اس کے قوانین کا تصور پُرانا ہے۔گاؤں کے بزرگوں کے ذریعہ 'رچابندا'یا تنازعات کا حل نکالنے کے عمل کو یہاں ایک قانونی عمل سمجھا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے گاؤں والے سرکاری عدالتوں میں جانے سے ہچکچاتے ہیں۔
چالیس سال قبل گاؤں کے عوام کو انصاف دلانے کے مقصد سے 30 ہزار قانونی پینل تشکیل کیے گئے اور تیس سال قبل جب این ٹی راما راؤ کی حکومت نے اسمبلی میں منڈل پرجا پریشد کا قانون لایا تھا، اس وقت کی کانگریس حکومت نے اسکے خلاف ووٹ دیا تھا۔حالانکہ راما راؤ نے سنہ 1995 میں اس قانون کو منظور تو کروایا لیکن یہ ایک سال کے اندر ہی رد ہوگیا۔