نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز مشاہدہ کیا کہ روڈ سیفٹی کو قانون کے سماجی مقصد کے ساتھ متوازن ہونا ضروری ہے اور وہ آئینی بنچ میں سماجی پالیسی کے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔سپریم کورٹ کی بنچ نے اس دوران مرکز سے پوچھا کہ اگر لائٹ موٹر وہیکل (ایل ایم وی) ڈرائیونگ لائسنس رکھنے والا شخص کسی مخصوص وزن کی ٹرانسپورٹ گاڑی چلانے کا اختیار رکھتا ہے،اور کیا اس کیلئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا، "یہ صرف قانون کا سوال نہیں ہے بلکہ قانون کے سماجی اثرات کا بھی ہے…روڈ سیفٹی کو قانون کے سماجی مقصد کے ساتھ متوازن ہونا ضروری ہے اور آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ سنگین مشکلات کا باعث بنتا ہے یا نہیں..." بنچ نے زور دیا کہ یہ لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کو متاثر کرنے والے پالیسی ایشوز ہیں اور حکومت کو نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس معاملے کو پالیسی لیول پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بنچ نے کہا کہ وہ آئینی بنچ میں سماجی پالیسی کے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئینی بنچ میں سماعت اس وقت آگے بڑھ سکتی ہے جب حکومت اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرے ۔اس کیلئے سپریم کورٹ نے مرکز کو دو مہینوں کا وقت دیا۔اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی نے عدالت میں مرکز کی نمائندگی کی۔بنچ نے مشاہدہ کیا کہ ملک بھر میں لاکھوں ڈرائیورز ہو سکتے ہیں، جو دیوانگن ججمینٹ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور "یہ کوئی آئینی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ خالصتاً ایک قانونی مسئلہ ہے۔بنچ نے واضح کیا کہ قانون کی کسی بھی تشریح میں سڑک کی حفاظت اور پبلک ٹرانسپورٹ کے دیگر صارفین کے تحفظ کے جائز خدشات پر غور کرنا چاہیے۔