11 دسمبر کو ہیبی ٹیٹ سینٹر Habitat Center In Delhi میں ایک شاندار بین الاقوامی کنونشن کا International Convention Organize In Delhi انعقاد کیا گیا تھا۔ اس وموقع پر آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اندریش کمار، گورنر عارف محمد خان، ایم پی پرکاش جاوڈیکر، مرکزی وزراء جنرل وی کے سنگھ اور سبھاش سرکار کلیدی مقررین موجود تھے۔ ان کے علاوہ نامور سفارت کاروں، دفاعی ماہرین، یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور بہت سے دانشور موجود رہے۔
بین الاقوامی کنونشن میں شدت پسندی پر مختلف رہنماؤں کا ردعمل اندریش کمار نے کہا کہ پانچ ہزار سال پہلے بھی وہ سچ اور جھوٹ کو جانتے تھے جب انہوں نے کنس اور راون کو ٹھکرا کر کرشن اور رام کا انتخاب کیا تھا۔ آج بھی وہ وقت ہے جب بھارت سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کھڑا رہے گا نہ کہ جھوٹوں اور ظالموں کے ساتھ۔ بھارت طالبانیوں، بنیاد پرستوں، شدت پسندی کے ساتھ نہ پہلے تھا اور نہ کبھی رہے گا۔ بھارت نے ہمیشہ واسودیو کٹمبکم میں یقین کیا ہے اور اس نظریہ کو ترجیح دیتے ہوئے سب کا احترام کیا ہے۔
بین الاقوامی کنونشن میں شدت پسندی پر مختلف رہنماؤں کا ردعمل اس موقع پر مرکزی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے سرو دھرم پر زور دیتے ہوئے سب کو ایک ساتھ متحد ہونے پر زور دیا۔ اس کے لیے بھارتی فوج کی مثال دیتے ہوئے جنرل سنگھ نے کہا کہ فوج میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، تمام مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور سب کا کام بھارت کی حفاظت کرنا ہے۔ وی کے سنگھ نے کہا کہ جب فوج میں ہولی کا تہوار ہوتا ہے تو مولوی پوجا کرتے ہیں اور جب عید کا موقع ہوتا ہے تو پنڈت پوجا کرتے ہیں۔
جنرل وی کے سنگھ نے کہا کہ شدت پسند کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہ پاکستان، چین، ایران، قازقستان، ترکمانستان جیسے ممالک سے جڑتا ہے اور ان ممالک کی سیاسی مفاد کی وجہ سے افغانستان میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے طالبان جیسے لوگ طاقت کی ٹرینگل بنانے کے لیے بندوق کے زور پر اقتدار میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور انہیں کھاد اور پانی پڑوسی ملک سے ملتا ہے۔
جنرل سنگھ نے کہا کہ لوگ شدت پسندی پھیلانے کے لیے خوف کا کاروبار کرتے ہیں۔ جیسے دو لوگوں کو قتل کر کے پھانسی پر لٹکا دینا تاکہ لوگ ڈرتے ہوئے دیکھ لیں، اسکول پر حملہ کر کے معصوم بچوں کی جان لے کر ڈرانا۔ اسی طرح بازار میں دھماکے کرکے تاجروں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کرتے ہیں اور اس سب کا مقصد خوف کی مدد سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ آئی ایس آئی کے علاوہ طالبان کو پاکستان سے جیش اور آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ان سب کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں تعلیم اور انسانیت کا صحیح سبق پڑھایا جائے۔ اختلافات ختم کر کے لوگوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو توڑنا۔
کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان نے تعلیم اور انسانیت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خیالات پیش کیے۔ انہوں نے قرآن کی آیات پڑھ کر وضاحت کی کہ قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اسلام کو پھیلنے کے لیے بندوق یا کوئی ہتھیار استعمال کرنا پڑے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ نہ تو قرآن پڑھتے ہیں اور نہ ہی قرآن کی تعلیم کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس قرآن اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدارس میں چار ایسی تربیت دی جاتی ہے جو دہشت گردی پھیلاتی ہیں کیونکہ انہیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ اسلام بہترین ہے اور اسے پوری دنیا میں پھیلانا ہے۔ عارف محمد خان نے کہا کہ اگر اللہ چاہتا کہ ہر جگہ صرف اسلام اور مسلمان ہوں تو وہ خود ایسی دنیا بناتا نہ کہ دنیا کے سپاہی یہ کام کرتے۔
سوامی چنمیانند نے کہا کہ مسجد مندر جانے سے زیادہ مندر جانا ضروری ہے، کسی کے دکھ کو سمجھنا اور اسے دور کرنا ہی مذہب ہے۔ کورونا کے دور میں دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بھارت نے کئی ممالک کی مدد کی۔ مفت کھانا اور دوا پہنچایا گیا۔ اگر کوئی ملک یہ سمجھتا ہے کہ بندوق کے استعمال سے طاقت حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ طاقت نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ ایسے ملک، معاشرے یا ادارے کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔
اس موقع پر بی جے پی کے رہنما پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ وقت بدل رہا ہے۔ 2014 سے پہلے ملک میں آئے روز بم دھماکے ہوتے تھے، لیکن جب سے مرکز میں مودی حکومت آئی ہے، جموں و کشمیر اور شمال مشرق کے چند واقعات کو چھوڑ کر ملک میں ایسے واقعات رک گئے ہیں۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ ہمارے کسی شہر میں دھماکہ ہوتا ہے تو بھارت دوسرے ملک کی سرحد میں گھس کر اسے مار دیتا ہے۔ امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر حملہ ہوا تو امریکہ پوری طرح سے ہل گیا لیکن پھر انہوں نے اتنا سخت حفاظتی انتظام کیا جو امریکہ میں پھر کبھی نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: Today in History: تاریخ میں آج کا دن
ڈاکٹر عمیر الیاسی نے طالبان کی طاقت اور دہشت گردی کی بھی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا اصل مفہوم مفاہمت، امن اور سلامتی ہے۔