نئی دہلی: مولانا ارشدمدنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران فرقہ پرست طاقتوں نے جس طرح نفرت کا ماحول قائم کردیا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت کا جو کردار رہا ہے اس کے پیش نظر مسلمان یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اس وقت ہر پالیسی اس کے وجود کو تباہ وبرباد کر دینے کے لیے سامنے آرہی ہے۔ Reaction of Maulana Arshad Madni on Madrasas Survey
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس فرقہ پرستوں کی آنکھ کے کانٹے ہیں اس لئے ہمیں ان کی نیتوں کو سمجھنا ہوگا، مدارس کے نظام کو درست کرنے کی بات اپنی جگہ لیکن ہمیں ان کے لیے کمربستہ ہونا ہوگا کیونکہ کہ یہ مدارس قوم کی شہہ رگ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہمارے دینی اداروں کو دستور میں دیئے گئے حق کی بنیاد پر چلنے دیا جائے لیکن فرقہ پرست انہیں ختم کرنے کی ناپاک سازش میں مبتلا ہیں، مگر ہم ان شاء اللہ انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے، مدارس اسلامیہ کا وجود ملک کی مخالفت کے لیے نہیں اس کی تعمیر وترقی کے لیے ہے، مدارس کا ڈیڑھ سوسالہ کردار اس کا گواہ ہے۔ Arshad Madni on Madrasas Survey
ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ دوسری طرف ریاست آسام میں مدرسوں کو یہ کہہ کر ڈھایا جارہا ہے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز ہیں اور بدامنی پھیلانے والی القاعدہ کے دفاتر بنے ہوئے ہیں، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اترپردیش میں جب تمام غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کرانے کا سرکلر جاری ہوا ہے تو مسلمانوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے خدشات اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سرکلر جاری کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، انہیں مطمئن کیا جانا چاہیے تھا، سرکار کی نیت پر شک کو کچھ اس لئے بھی تقویت مل رہی ہے کہ اترپردیش میں بڑی تعداد میں غیر منظور شدہ دوسرے تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں۔ چنانچہ اگر غیر منظور شدہ مدارس کا سروے ضروری ہے تو دوسرے غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں کا سروے ضروری کیوں نہیں؟ سرکارکی نیت اگر درست ہے تویہ امتیاز کیوں؟ مدارس کہاں ہیں، کس زمین پر قائم ہیں اور انہیں چلانے والے کون ہیں اگر سروے کا مقصد یہی ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں کوئی غلط بات ہے، مسلمان تعاون کرنے کو تیار ہیں، یوں بھی مدارس کے دروازے تو ہمیشہ سے سب کے لیے کھلے ہیں، ان کے اندر چھپانے جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ بے بنیاد الزام تراشی کرکے مدارس کے انہدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ جو الزام وہ لگارہے ہیں، اس کا ان کے پاس ثبوت کیا ہے، میرا دعویٰ ہے کہ وہ قیامت تک کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے، زبان سے آدمی توکچھ بھی کہہ دے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ آسام کے وزیراعلیٰ کانگریس کے دور میں بھی وزیر رہے ہیں، بی جے پی اقتدار میں آئی تواس وقت بھی وزیر ہوئے، مگر اب جبکہ وہ خود وزیراعلیٰ بن چکے ہیں آسام کے مدارس انہیں القاعدہ کے دفتر نظر آنے لگے، سوال یہ ہے کہ جب وہ وزیر تھے تب انہیں کہیں القاعدہ کیوں نظر نہیں آیا؟ Arshad Madni on Madrasas Survey