نئی دہلی: منور رانا کے انتقال پر نا صرف اردو بلکہ ہندی حلقوں میں بھی غم کا ماحول ہے۔ منور رانا کے منور رانا کے انتقال پر روزنامہ راشٹریہ سہارا کے سابق ایڈیٹر اور طنز و مزاح کے معروف شاعر اسد رضا نے کہا کہ منور رانااس دور کے بہت مشہور ومعروف شاعر تھے جنہیں عوام خوب پسند کرتے تھے،وہ مشاعرے کی ضامن تھے۔
اسد رضا نے کہاکہ منور رانا کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا شرف حاصل رہا ہے ان میں خاص طور پر لال قلعہ کا مشاعرہ ہے۔ منور رانانے ہمیشہ آسان زبان میں عوامی اور اپنی جذبات کی نمائندگی کی، ان کا 'محاجر نامہ' کافی مقبول ہوا، اسے ہندی میں بھی شائع کیا گیاجس پر انہوں نے اس کتاب کا تبصرہ بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا منور رانا انسان دوست اور روشن خیال تھے۔ان کی سب سے بڑی بات یہ یے کہ انہوں نے 'ماں' کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ انہوں نے کہا کہ منور رانا عالمی شہرت یافتہ شاعر تھے اور بیرون ممالک میں متعددمشاعرے پڑھنے کا مواقع ملے۔انہوں نے کہا کہ ایسے عوامی شاعر کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وہیں معروف ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے منور راناکے انتقال پررنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منور رانا ایک بڑے شاعر تھے اور عوامی حلقے میں کافی مشہور تھے،انہوں نے خاص کر کے 'ماں' کے حوالے سے جو شاعری کی ہے وہ کافی مقبول ہے،۔انہوں نے کہا کہ بچپن سے ہی وہ منور رانا کے شعر پڑھا کرتے ہیں، پہلے ان سے شناسائی نہیں تھی بعد میں پتہ چلا کہ جو شعر وہ پڑھتے منور رانا کے ہیں
کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا
تمہارے بعدکسی کی طرف نہیں دیکھا
یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا