پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی پرانی دہلی میں رہا کرتے تھے ان کی رگ۔ رگ میں دہلی اور اس کی تہذیب بسی ہوئی تھی۔
گلزار دہلوی ہماری مشترکہ تہذیب اور گنگا جمنی تمدن کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ گلاب کا ایک پھول پنڈت نہرو کی طرح ہمیشہ ان کی شیروانی پر آویزاں رہتا تھا۔
انھوں نے تمام زندگی شیروانی ہی پہنی اور میں نے کبھی انھیں اس کے بغیر نہیں دیکھا۔ اگر کسی کو سیکولرازم کی صحیح تصویر دیکھنی ہوتی تو وہ بلا جھجک گلزار دہلوی کے پاس چلا جاتا تھا۔
اردو، ہندی، فارسی، سنسکرت اور عربی کا ثقافتی ورثہ، کشمیر، پنجاب، دہلی اور یوپی کا سنگم اگر کسی ایک شخصیت میں دیکھنا مقصود ہو تو وہ گلزار دہلوی کے حضور میں حاضر ہوکر ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا اور گلزار دہلوی اس کی حسرت کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتے تھے۔
وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی اور علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔
دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ وہ ہر برس رمضان کے مہینے میں روزہ رواداری رکھتے تھے۔