مودی نے ایک بلاگ میں کانگریس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ 'کنبہ پروری کو فروغ دینے والی پارٹیوں کو آزاد اور بے خوف صحافت سے ہمیشہ سے ہی بے چینی محسوس ہوئی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ کانگریس حکومت کی طرف سے لائی گئی سب سے پہلی آئینی ترمیم ’فری اسپیچ‘ پر روک لگانے کے لئے ہی تھی۔
فری پریس کی اصل شناخت یہی ہے کہ وہ اقتدار کو سچ کا آئینہ دکھائے، لیکن اسے فحش اورغیر مہذہب شناخت دینے کی کوشش کی گئی۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے حالیہ دور حکومت میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا، جب حکومت ایک ایسا قانون لےکر آئی جس کے مطابق اگر آپ نے کچھ بھی توہین آمیز پوسٹ کیا تو آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ یو پی اے کے طاقتور وزراء کے بیٹوں کے خلاف ایک ٹویٹ بھی معصوم آدمی کو جیل میں ڈال سکتا تھا۔
کچھ دنوں قبل ہی ملک نے اس خوف کے سائے کو بھی دیکھا، جب کچھ نوجوانوں کو کانگریس کے اقتدار والی ریاست کرناٹک میں ایک پروگرام کے دوران اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے سبب گرفتار کر لیا گیا۔
بلاگ کے مطابق کانگریس کے کام کرنے کا طریقہ بالکل واضح ہے کہ پہلے مسترد کرو، پھر توہین کروو اور اس کے بعد ڈراؤ دھمکاؤ۔
اگر کوئی عدالتی فیصلہ ان کے خلاف جاتا ہے، تو وہ اسے پہلے مسترد کرتے ہیں، پھر جج کو بدنام کرتے ہیں اور اس کے بعد جج کے خلاف مواخذہ لانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔
وزیر اعظم نے لکھا کہ ’’سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اپنے ایک تبصرے میں پلاننگ کمیشن کو ’جوكروں کا گروپ‘ کہا تھا۔ اس وقت پلاننگ کمیشن کے نائب صدر ڈاکٹر منموہن سنگھ تھے۔
ان کے اس تبصرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس سرکاری اداروں کے تئیں کس طرح کی ذہنیت رکھتی ہے اور کیسا سلوک کرتی ہے۔
انہوں نے یو پی اے دور حکومت کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت کانگریس نے کنٹرولر آڈیٹر جنرل (سی اے جی۔ کیگ) پر صرف اس وجہ سوال اٹھائے تھے، کیونکہ اس نے کانگریس سرکار کے ٹو جی گھوٹالہ اور کوئلہ گھوٹالہ جیسی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا تھا۔
یو پی اے حکومت کے دور میں سی بی آئی ’کانگریس بیورو آف انویسٹی گیشن‘ بن کر رہ گئی تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے خلاف اس کا بار بار غلط استعمال کیا گیا۔ آئی بی اور را جیسے اہم اداروں میں جان بوجھ کر کشیدگی پیدا کی گئی۔
مرکزی کابینہ کی طرف سے لئے گئے پالیسی فیصلے کے دستاویز کو پریس کانفرنس کے دوران ایک ایسے شخص نے جو کابینہ کا کا رکن بھی نہیں تھا پھاڑ دیا تھا۔ قومی مشاورتی کونسل کو وزیر اعظم کے دفتر کے متوازی کھڑا کر دیا گیا تھا اور تعجب کی بات ہے کہ وہی کانگریس آج اداروں کی بات کرتی ہے۔