حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے خواجہ اعزاز الدین نے قبل ازیں تلنگانہ ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر سوشیل میڈیا نیٹ ورکس سے مخالف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے پوسٹوں کو ہٹانے کی ہدایت دینے کی گذارش کی تھی، جس پر تلنگانہ ہائیکورٹ نے ٹوئیٹر کے خلاف مرکزی حکومت کو ہدایت دینے سے انکار کرتے ہوئے عرضی کو خارج کردیا جبکہ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی اس معاملہ میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
ٹویٹر پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات کی تحقیقات کے لیے عرضی
سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے التجا کی گئی ہے کہ سی بی آئی یا این آئی اے کے ذریعہ ٹوئیٹر اور ان صارفین کے خلاف جنہوں نے گذشتہ سال تبلیغی جماعت معاملہ کے بعد مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے اشتعال انگیز پوسٹ کیے تھے، ان کی تحقیقات کرائی جائے۔
تلنگانہ ہائیکورٹ میں عرضی خارج ہونے کے بعد اعزاز الدین نے دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ درخواست گذار نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ٹی ایکٹ 2000 میں مذہبی طبقہ کے خلاف نفرت انگیز پیغامات بھیجنے والوں کے خلاف کاروائی کےلیے کوئی مناسب اصول نہیں ہے جس کی وجہ سے صارفین بے خوف مذہبی اشتعال انگیزی پھیلارہے ہیں۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ مرکزی حکومت کو آئی ٹی ایکٹ 2000 میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی مذہبی طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی کےلیے رہنمایانہ اصول وضع کریں۔