قربانی ہر زمانے میں دنیا کی تمام قوموں کا شعار رہا ،لوگ مختلف زمانوں میں مختلف طریقے اور ڈھنگ سے اس مقدس عبادت پر عمل پیرا رہیں،اور اسے اپنا وظیفہ زندگی بنایا۔
حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قربانی کا جو سلسلہ شروع ہوا تو کبھی منقطع نہیں ہوا، بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری رہا۔ کتنی تہذیبیں اسی کے دم سے وجود میں آئیں۔ کتنے اہل وفا اس راہ کی خاک چھانتے رہے۔کتنوں نے اس پر اپنی عمریں کاٹ دیں۔ساری عبادتیں ہوتی رہیں، سارے طریقے انجام پاتے رہے، صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس عمل کا عالمی ابدی اور ہمہ گیر پیغام دنیا کے سامنے آنا ابھی باقی تھا۔اس کے اسرار اور حقائق سے پردے اب بھی نہ اٹھ سکے۔
وقت اس بات کا متقاضی تھا۔رحمت الہی کے جوش میں آنے کا وقت قریب آچکا تھا۔قوموں کی قسمت چمکنے والی تھی۔اتنے عظیم کام کو سرانجام دینے کے لئے ایسے عاشق کی ضرورت تھی جو اس بلند مقصد کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو۔اس کی راہ میں عشق مجازی کے پردے اگر حائل ہوں تو عشق حقیقی کی تپش کے سامنے پگھل جائیں، اور وہ شمع الہی میں اپنی ہستی فنا کر دینے کے لئے بیقرار ہو۔
اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اللہ نے ایسی ہستی کا انتخاب فرمایا جو سب کے نزدیک مسلم بلکہ قابل تقلید تھی جس سے قربانی کا لاثانی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قربانی کو پانے تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایسا انوکھا حیرت انگیز طریقہ اپنایا، جہاں عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں۔ اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی سند پیش کرنے سے قاصر تھی۔غور کیجۓ اتنے عظیم نازک جان گسل کام کے لئے محض ایک خواب کا سہارا لیا گیا۔
اس میں کمال اظہار بندگی اطاعت و تابعداری تسلیم و رضا عشق حقیقی اور فنائیت کا امتحان تھا۔
یہ خلیل الرحمٰن ہی کا دل تھا جس نے ایک اشارہ پاتے ہی اپنی زندگی کے بیش قیمت سرمایہ کو قربان کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہو گۓ۔اور اپنے مالک کے حضور اپنا سر تسلیم خم کر دیا۔
آپ نے بندگی کی ایسی مثال قائم کردی اور محبت کی ایسی ڈگر کھول دی جہاں تک رسائی کے بغیر عبودیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ عبودیت کی یہی معراج ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری فرمادیا
ارشاد ہوتا ہے۔