نئی دہلی:ایک مرتبہ پھر طلاق کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے، اس مرتبہ طلاقِ کنایہ اور طلاقِ بائن کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ یہ مفاد عامہ کی عرضی(PIL) ایک خاتون ڈاکٹر نے دی ہے،اس عرضی میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صنفی، مذہبی اور طلاق کے لیے تمام شہریوں کے تعلق سے یکساں رہنما خطوط وضع ہوں۔ PIL Against Talaq e Kinaya And Talaq e Bain
عرضی گزار نے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاقِ کنایہ اور طلاق بائن نہ تو انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے جدید اصولوں سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی اسلامی عقیدے کا لازمی جزو ہیں۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ اس کے والدین کو جہیز دینے پر مجبور کیا گیا اور بعد میں جہیز نہ ملنے پر ہراساں کیا گیا۔ مزید یہ کہ جب اس کے والد نے جہیز دینے سے انکار کیا تو اس کے شوہر نے قاضی اور وکیل کے ذریعے اسے طلاق کنایہ اور طلاق بائن دیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے مذہبی عہدیداریعنی امام / مولوی/ یا شہرقاضی وغیرہ طلاقِ کنایہ اور طلاق بائن کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی اجازت دیتے ہیں، تاہم یہ مسلم خواتین کے خلاف سراسر زیادتی کی بات ہے۔اس کے ذیل میں مسلم خواتین کے ساتھ ایسے سلوک کئے جاتے ہیں جومایوس کن ہے۔ اس طرح آرٹیکل 14، 15، 21، 25 میں درج ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
درخواست گزار نے مسلم میرج ڈسسولیشن ایکٹ 1939 کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اسے ناجائز اور غیر آئینی قرار دے کیونکہ یہ مسلم خواتین کو طلاق کی ان شکلوں سے بچانے میں ناکام ہے۔ درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ طلاق کنایہ اور طلاق بائن ایک خطرناک امر ہے اور بدقسمتی سے مسلم خواتین کے لیے یہ پریشان کن ہے،یہ تعلیمی، اور سماجی لحاظ سے بھی انتہائی سنگین ہے۔
درخواست گزار کے مطابق طلاق کا یہ عمل مردوں اور عورتوں کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے جو خواتین کے احترام کے حق کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ طلاق کنایہ اور طلاق بائن کا خوف دکھاکر استحصال کیا جاتا ہے،شادی کے بعدان کے والد نےشوہر کی ایم ایس کی فیس ادا کی اور انہیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے بھی اپنے والد پر انحصار کرنا پڑا اور ان کا شوہر ان کے والد کو گالیاں دے کر ہراساں کرتا تھا۔