انھوں نے 1857 کے بعد قوم کی مایوسی اور ناامیدی دور کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ انھوں نے انگلستان میں قیام کے دوران دو اہم کارنامے انجام دیے۔ اول تو ولیم میور کی کتاب 'دی لائف آف پروفیٹ' کا مدلل جواب لکھا جو 'خطبات احمدیہ' کے نام سے شائع ہوا۔
دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ انگریزوں کی معاشرتی و تہذیبی ترقی کے اسباب کی تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قوم کو متمدن اور مہذب بنانے میں دو رسائل 'ٹیٹلر' او'اسپیکٹیٹر' کا کلیدی کردار تھا۔
چنانچہ انھوں نے اسی طرز پر 1870 میں رسالہ 'تہذیب الاخلاق' جاری کیا جس نے مسلمانوں کی سماجی و معاشرتی اصلاح اور تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔'
ان خیالات کا اظہار ممتاز نقاد اور شاعر پروفیسر شہاب الدین ثاقب، استاد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے”بازگشت“ کی جانب سے سرسید احمد خاں کے مضمون ”اپنی مدد آپ“ کی پیش کش اور سرسید کے کارناموں سے متعلق تنقیدی گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے 1857 کے بعد مسلمانوں میں امید کی کرن پیدا کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو کاہلی اور بے عملی ترک کر کے محنت، لگن اور اخلاق کے ذریعے ملک اور معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے مضامین میں خلوص اور مواد و اسلوب کی ہم آہنگی ملتی ہے۔
وہ اپنی بات سادہ لیکن مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر ثاقبؔ نے کلاسیکی ادب کی پیش کش اور اس پر سنجیدہ گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے ”بازگشت“ کے ذمہ داران کو مبارک باد دی اور کہا کہ یہ فورم نہایت خلوص کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہا ہے۔
ممتاز افسانہ نگار اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے صدارتی خطاب کے دوران کہا کہ سرسید نے جن حالات میں ”اپنی مدد آپ“ لکھا اس وقت قوم مایوسی کے عالم میں مبتلا تھی۔
اس مضمون کے ذریعے انھوں نے مسلمانوں کو اپنا حال اور مستقبل سنوارنے کی ترغیب دی۔ آج بھی قوم ویسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ ”اپنی مدد آپ“ سے ہمیں آج بھی سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنے اخلاق سے لوگوں کو متاثر کریں اور اپنی شبیہ بہتر بنائیں۔
انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ افراد کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ علیگ برادری نے اپنی تہذیبی اقدار کی دل و جان سے حفاظت کی ہے اور اے ایم یو کے فارغین ہر جگہ اپنی انفرادی شناخت کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جامعہ عثمانیہ جس کی اپنی ایک منفرد تہذیب تھی اسے منصوبہ بند طریقے سے ختم کردیا گیا اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا مخصوص کلچر بھی تباہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اس سے قبل ڈاکٹر محمد زاہدالحق، ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبہئ اردو، حیدرآباد یونیورسٹی نے بے عمدہ اور دلچسپ انداز میں ٹھہر ٹھہر کر اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ”اپنی مدد آپ“ پیش کیا۔شرکانے ان کے انداز پیش کش کی کھلے دل سے ستائش کی۔