بھارت میں عدالت عظمیٰ اور ذیلی عدالتوں نے تبلیغی جماعت کے ان سینکڑوں ارکان کو الزامات سے بری کردیا ہے جنہیں گزشتہ برس کورونا وبا پھیلانے کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے کئی اراکین کو پولیس اور میڈیا کی مہم کے نتیجے میں جیلوں اور خصوصی مراکز میں قید بھی کیا گیا۔ تبلیغی اراکین کی باعزت رہائی کے باوجود تاہم ملک میں اس گروہ کی دعوتی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی ہیں۔ دلی میں اس جماعت کا مرکزی دفتر بھی ہنوز بند ہے۔
رہائی کے اس سلسلے سے میڈیا اور پولیس کے ان دعووں کی قلعی کھل گئی ہے جنہوں نے کسی تحقیق کے بغیر تبلیغی جماعت کے اراکین کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جہاں جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے 22 جولائی 2020 کو تبلیغی جماعت کے 17غیر ملکی اراکین کو یہ کہتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا کہ یہ لوگ چھپے ہوئے نہیں بلکہ پھنسے ہوئے تھے۔
وہیں 22 اگست 2020 کو بامبے ہائی کورٹ نے جماعت کے 26 غیر ملکی ارکان کے خلاف ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا حکم صادر کرکے پولیس کے رول کو بے نقاب کردیا۔ لکھنؤ عدالت کے چیف جسٹس سوشیل کمار نے تبلیغی جماعت کے 9 ممبران کو باعزت بری کیا۔ اپنے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے کوئی بھی ثبوت و شواہد نہیں موصول ہوئے۔
حالانکہ تبلیغی اراکین صاف و پاک ، خوش لباس اور بے ضرر ہوتے ہیں لیکن میڈیا پروپگینڈا کے ذریعے انہیں بداخلاق اور قانون شکن قرار دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ 18نومبر 2020 کو سپریم کورٹ نےجماعت سے متعلق فرضی خبروں کے معاملے میں میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مرکزی حکومت کی شدید سرزنش کی۔
12 دسمبر 2020 کو دہلی کی ساکیت کورٹ نے بھی 36 غیر ملکیوں کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔
13 جنوری 2020 کو اے ایم کھانویلکر، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشنا مرلی کی تین رکنی بینچ نے ان تمام افراد کو اپنے وطن واپس لوٹنے کی اجازت دی
رواں برس 20 جنوری کو جھاکھنڈ کی عدالت نے انڈونیشیا کے دس شہریوں کے خلاف مقدمہ کو خارج کر دیا۔ ان افراد کے خلاف غیر ملکی ایکٹ کے تحت دفعات عائد کئے گئے تھے۔
لکھنؤ کے سی جے ایم کورٹ نے فروری 2021 کو تبلیغی جماعت کے 18 افراد کو با عزت بری کر دیا۔ ان میں سے 7 ملیشیا انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک کے غیر ملکی اور 11 بھارتی شہری شامل تھے۔
22 فروری 2021 کو دہلی کی ساکیت کورٹ نے تبلیغی جماعت کے 35 اراکین کے پاسپورٹ جاری کرنے کاحکم دیا۔ اور واضح طور پر کہا کہ ان کے خلا تمام الزامات بے بنیاد تھے۔
رواں برس 23 مارچ کو لکھنؤ عدالت کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سوشیل کمار نے تبلیغی جماعت کے 9 ممبران کو باعزت بری کیا۔ اپنے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے کوئی بھی ثبوت و شواہد نہیں موصول ہوئے