دہلی:قومی کمیشن برائے خواتین نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کے ’غیر کوڈیفائیڈ‘ نوعیت کی وجہ سے مسلم خواتین کے لیے چیلنجز کھڑے ہوئے ہیں۔ قومی کمیشن برائے خواتین نے مسلم خواتین کے حقوق پر تبادلہ خیال کیا اور مسلم پرسنل لاء کا خاص طور پر جائزہ لینے پر توجہ دی۔ یہ مشاورت لا کمیشن کی حالیہ کال کے پس منظر میں کی گئی جس میں مختلف تنظیموں اور عوام سے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں رائے طلب کی گئی ہے۔
خاتون کمیشن نے مسلم پرسنل لاء کے غیر کوڈیفائیڈ ضابطوں کے منفی اثرات کو اجاگر کیا، جس کی غلط تشریح کی گئی اور مسلم خواتین کے لیے اہم چیلنجز پیدا ہوئے۔ کمیشن کی چیئرپرسن نے ایک بیان میں میثاق شدہ قوانین کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا ایسا قانون جو ہندو، عیسائی، سکھ اور بدھ مذاہب کی خواتین کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو، اس طرح کا قانون مسلم خواتین کے لیے تصور کیا جا سکتا ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ میثاق شدہ قوانین کی ضرورت کو انتہائی اہم سمجھا گیا، جس میں ایک قانونی فریم ورک کی طرف کام کرنے پر بھی زور دیا گیا جو کہ سب کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہو، چاہے ان کی مذہبی وابستگی کچھ بھی ہو۔ این سی ڈبلیو نے ایک بیان میں کہا کہ بحث میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یکساں سول کوڈ کی عدم موجودگی نے ہمارے متنوع ملک میں عدم مساوات اور عدم مطابقت کو برقرار رکھا ہے، جو سماجی ہم آہنگی، اقتصادی ترقی اور صنفی انصاف کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ ہے۔