اردو

urdu

ETV Bharat / state

قومی تعلیمی پالیسی اور مدارس اسلامیہ

اسلامی فقہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے قومی تعلیمی پولیسی کے حوالے سے وزیر تعلیم سے ملاقات کا مشورہ دیا ہے

جماعت اسلامی ہند
جماعت اسلامی ہند

By

Published : Sep 2, 2020, 8:04 AM IST

قومی دارالحکومت دہلی میں مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند نے ’مدارس پرنئی تعلیمی پالیسی کے اثرات‘ کے عنوان پر ایک آن لائن میٹنگ ہوئی۔

اس میں مرکزی تعلیمی بورڈ کے سربراہ تنویر احمد نے اپنے افتتاحی تقریر میں کہا کہ مدارس کے حوالے سے نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لینا آج کا سب سے اہم ایشو ہے۔

یہ پالیسی کوئی قانون نہیں ہے، آنے والے دنوں میں اس پر قوانین بھی بن سکتے ہیں۔

ابھی یہ تجاویز ہیں اور اس کی روشنی میں ہمیں غور کرنا ہے کہ مدارس کے حوالے سے اس پالیسی میں کیا مثبت و منفی پہلو ہیں اور کیا اندیشے ہیں۔

ہمارے ملک میں دو طرح کے دینی مدارس ہیں۔

ایک وہ جو بورڈ کے تحت چلتے ہیں۔یہ نظام ملک کی پانچ ریاستوں میں قائم ہے۔

جب کہ دوریاستیں راجستھان اور گجرات میں مدرسہ بورڈ کا ڈرافٹ تیار ہوچکا ہے۔

بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس کی دو کٹیگری ہیں۔

ایک وہ جو مالی تعاون لیتے ہیں اوردوسرے جو مالی تعاون نہیں لیتے ہیں، مگر بورڈ اسے ریگولیٹ کرتا ہے۔

دوسرے وہ مدارس ہیں جو بورڈ سے ملحق نہیں ہیں۔

ان میں چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے مدارس شامل ہیں۔

یہ مدارس کسی ٹرسٹ کے تحت چلتے ہیں۔

اس وقت ہماری گفتگو انہیں مدارس کے تعلق سے ہے کہ اس پالیسی کے بعد ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ دس برسوں کے اندر تمام تعلیمی اداروں کو ایک اسٹنڈرڈ پر لائیں گے، تو اس وقت مدارس کے ساتھ کیا ہوگا؟

اسی طرح تمام تعلیمی اداروں کے لئے ایکریڈیٹیشن(Accreditation) یعنی منظوری کی بات کہی گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آزاد مدارس اس کے تحت آئیں گے؟

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام بچوں کو اسکول سے جوڑا جائے گا اور انہیں ایک کوڈ نمبر دیا جائے گا۔یہ اسمارٹ نمبر ہوگا جسے ایس ٹی سی کا نام دیا گیا ہے۔ اس نمبر پر بچوں کی تمام اگلی کارروائیاں ہوں گی۔

یہ اسمارٹ نمبر مدارس کے بچوں کو بھی دیا جائے گا؟

اگر نہیں تو انہیں قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا ہوگا۔

پالیسی میں متبادل اسکول کی بات کہی گئی ہے،اس کا طریقہ کیا ہوگا اورکیا اس کا اطلاق مدارس پربھی ہوگا؟

اسی طرح کچھ بڑے مدارس کی ڈگری کو ایک لیول مانا جاتا ہے اوراس کی بنیاد پر کئی یونیورسٹیوں میں طلباء کو داخلہ ملتا ہے۔

ان ڈگریوں کییہ حیثیت باقی رہے گییا نہیں؟

دستور کی دفعہ 29 اور30 کے مطابق مائنارٹی کو اپنا تعلیمی ادارہ کھولنے کا اختیار دیا گیا ہے،کیایہ اختیار برقرار رہے گا؟

اسی طرح برج کورس کے لئے مدارس کوالیفائی کریں گے؟

پالیسی میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کئی نکات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی سے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمیں آگے کیا رخ اختیار کرنا چاہئے۔ ہم ان خدشات پر متعلقہ وزارت سے مل کر اپنے خدشات کا اظہار کرنا چاہئے یا پھر ابھی انتظار کریں اور دیکھیں کہ حکومت کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے۔

اس میٹنگ میں جو بھی طے کیاجائے گا ہم اس کے مطابق قدم آگے بڑھائیں گے۔

پروفیسرمحمد اخترصدیقی سابق چیئرمین اے سی ٹی ای نے اپنا کلیدی نوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی میں مدارس کے سلسلے میں کوئی واضح ذکر نہیں ہے۔

چونکہ ابھی یہ ایک پالیسی ہے،قانون نہیں،اور پالیسی میں عموماً تفصیلی ذکر نہیں ہوتا ہے تاہم پالیسی سے حکومت کے نہج کا اندازہ مل جاتا ہے۔

جہاں تک پالیسی میں خدشات کی بات ہے اور مدارس کے ذکر نہ ہونے کی بات ہے تو مدارس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں پالیسی میں مثبت اشارے بھی ملتے ہیں۔

مثلاً اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پسماندہ گروہ کا تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے۔ ماضی میں ان کے لئے جو پروگرام بنائے گئے،وہ بہتر تھے لیکن اس میں جو خلا ہے اسے دور کیا جائے گا۔

ظاہر ہے پسماندہ گروہ میں مسلمان بھی شامل ہیں مگر خلا دور کرنے کی نوعیت کیا ہوگی ابھییہ واضح نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سہہ لسانی فارمولے میں اردو کو شامل نہ کرنا تشویش کی بات ہے جب کہ اس میں سنسکرت کو لیا گیا ہے حالانکہ سنسکرت ایک کلاسیکل زبان ہے مگر سہہ لسانی میں شامل کرکے اسے کلاسیکل اور ماڈرن دونوں زبانوں کا درجہ دیا گیا ہے۔

عربی کو بھی اس پالیسی میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے جب کہ عرب ممالک سے قدیم تجارتی تعلقات کے سبب یہ زبان ہماری معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت مددگار ہے۔

میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ کے سابق چیئرمین پروفیسر عبد الحلیم نے کہا کہ اس پالیسی میں قدیم تعلیمی ثقافت کا ذکر کیا گیا ہے مگر گزشتہ گیارہ سو سال میں مدارس نے تعلیم کے میدان میں جو اہم کردار ادا کیا ہے اور جس کا اعتراف انگریز کے دور میں لارڈ میکالے نے بھی کیا ہے،اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

میٹنگ میں اسلامی فقہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں مدارس کے مثبت و منفی پہلو کی رپورٹ اور دوسری اقلیتیں اور عام تعلیمی اداروں کی مثبت و منفی پہلوؤں کی رپورٹ تیار کرکے حکومت سے مل کر ابھی سے بات شروع کردینی چاہئے۔

ان کے علاوہ مولانا جلال نقوی، مولانا طاہر مدنی، مولانا یحییٰ نعمانی،امارت شرعیہ کے مولانا شبلی قاسمی، مولانا احمد سراج عمری،مولانا طارق ایوبی ندوی، مولاناشیث ندوی،وحید الدین عمری نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آخر میں مرکزی تعلیمی بورڈ کے چیئر مین جناب نصرت علی صاحب نے صدارتی خطبہ دیا۔

انہوں نے اپنے خطبے میں مقررین کی آراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کے اثرات ملک و ملت پر کیا پڑیں گے۔

اس موضوع پر اوائل اگست میں مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے اجلاس کیا جاچکا ہے۔

اس کی تفصیلات میڈیا کے سامنے رکھی گئی تھیں اور چونکہ ہماری طرح کرسچن اور دوسری اقلیتیں بھی تشویش میں ہیں لہٰذا 6 ستمبر2020 کو تمام اقلیتوں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک میٹنگ رکھی گئی ہے۔

اس میں اقلیتوں کی جانب سے آئندہ کا لائحہ عمل تیار ہوگا۔

رہی بات مدارس کی تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس وقت ہم صرف غیر الحاق شدہ مدارس پر توجہ کئے ہوئے ہیں اور ان تمام اجلاس میں جو باتیں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی آئیں گی۔

ان پر مشتمل ایک تحریر وزیر تعلیم کو دی جائے گی اور ایک نائندہ وفد کی ان سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں حکومت سے بات چیت ملک کے تمام طبقات اور مذاہب کی طرف سے ہونی چاہئے اور ابھی جو مدارس کے سلسلے میں وفاق وغیرہ کے مشورے آئے ہیں ان پرمتحد ہوکر غوروفکر کرکے کوئی صورت اختیار کی جائے گی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details